• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عام انتخابات کے بعد محسوس ایسا ہو رہا تھا کہ ملک کو سیاسی انتظامی اور آئینی استحکام حاصل ہوجائے گا، کیونکہ ملک میں دہشت گردی کی ذمہ داری قبول کرنے والے گروہوں نے نسبتاً موجودہ حکمراں جماعت کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھا ہوا تھا۔ لیکن دہشت گردی کے واقعات بدستور جاری ہیں۔ خیبرپختونخوا، کراچی اور بلوچستان اس آگ میں جلتے نظر آرہے ہیں۔ ملک میں پیش کیاجانے والا بجٹ کسی طریقے سے بھی کوئی انقلابی بجٹ نہیں کہا جاسکتا۔ اس میں بھی انہی حلقوں پر ٹیکس کی حد بڑھائی گئی ہے جو پہلے سے ٹیکس کے بوجھ تلے دبے ہیں۔ مثال کے طور پر پیٹرولیم مصنوعات ، ٹیلی کمیونیکیشن کی فیلڈ کے شعبے میں ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے جبکہ جو طبقہ آبادی ٹیکس کے نیٹ میں نہیں ہے، وہ بدستور اس نیٹ سے باہر نظر آتا ہے جو ایک مشکل مستقبل کا پتہ دے رہا ہے۔
عدالتوں میں ایک بار پھر مقدمات کی بھرمار نظر آرہی ہے اور اس ضمن میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف چلنے والے مقدمات بھی خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔ بالخصوص اگر آرٹیکل 6 کے تحت مقدمے کی کارروائی آگے بڑھتی ہے تو ملک ہیجانی کیفیت میں جاسکتا ہے جو نہ صرف غیر ملکی سرمایہ کاروں کے حوصلوں کو پست کرے گا بلکہ ملک میں تجارتی اور اقتصادی سرگرمیوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ موجودہ حکومت عوام کے مینڈیٹ کے ساتھ برسر اقتدار آئی ہے جسے پورا حق حاصل ہے کہ وہ ہر آئینی قدم اٹھائے لیکن اس کے لئے معروضی حالات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ دوسری جانب ایک ایسے مقام پر دس غیر ملکی سیاحوں کو قتل کر دیا جاتا ہے جہاں عام انسانوں کی رسائی ممکن نہیں۔ یہ واقعہ دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے اور یہ پاکستان کی تباہ حال معیشت کو مزید ابتر کرسکتا ہے۔ اس تناظر میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے گزشتہ دنوں پاکستان کو مسلم امہ کے ٹائی ٹینک سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ ”مسلم امہ کا ٹائی ٹینک ڈوب رہا ہے۔ ڈیک میں بیٹھے ہوئے ناخداؤں سے اپیل ہے کہ وہ اس کو ڈوبنے سے بچائیں۔“
ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے بھی اس بیان کی تائید کی ہے۔ یوں تو سیاسی رہنما جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو اس قسم کے بیانات دیا کرتے ہیں، لیکن الطاف حسین کی سیاسی زندگی کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہ حکومت میں رہیں یا حکومت سے باہر، وہ اس قسم کے بیانات دیتے رہے ہیں جنھیں ان کے بیانات کے اگر مگر کو سامنے رکھ کر ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ اگر کسی مخصوص نکتے پر کسی نے بحث شرو ع کی تو وہ عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے گا کیونکہ پورا پاکستان دہشت گردی کی شدید لپیٹ میں ہے اور اب تو حملے کرنے والے ببانگ دہل ان کی ذمہ داری بھی قبول کر رہے ہیں۔ معیشت تباہی کے قریب پہنچی ہوئی ہے ۔ مہنگائی کا عفریت بے قابو ہوچکا ہے۔ آئی ایم ایف بھاری قرضوں کی مد میں بھاری ٹیکس عائد کرنے کی پابندیاں لئے کھڑا ہے۔ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر اتنے مستحکم نہیں کہ روپے کی قدر کو بہتر کیاجاسکے۔ اس صورت میں ملک میں عدم استحکام اور ہیجانی کیفیت کسی طرح سے بھی ملک کی موافقت میں نہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اقدامات اس طرح تجویز کریں کہ اس وقت ملک کی ضرورتیں کیا ہیں۔ کیا یہ درست ہے کہ جنرل مشرف کو 3نومبر2007ء کے واقعات پر ہی عدالتوں میں لایا جائے یا یہ معاملہ 12اکتوبر1999ء سے شروع ہونا چاہئے؟ معاملہ کہیں سے بھی شروع ہو لیکن شروع کرنے والوں کو یہ جواب دینا ہوگا کہ 5جولائی 1977ء سے لے کر 17اگست1988ء تک ان کا کردار کیا رہا ہے؟ یہاں اخلاقی طور پر دو ہی راستے ہیں۔ یا تو معاملات کو اکتوبر1958ء سے شروع کیا جائے یا پھر اس کو تاریخ کا تکلیف دہ باب سمجھ کر بند کردیا جائے۔
طالبان سے مذاکرات کن بنیادوں پر ہوں، اس کا فیصلہ ہونا چاہئے۔ کیا کوئی ایجنڈا طالبان یا حکومت کے پاس ہے جو مذاکرات کی بنیاد بن سکے؟ زیر گردش قرضوں کے خاتمے کی حقیقی کوششیں سامنے لائی جانی چاہئیں۔ زر مبادلہ کے ذخائر کی سطح بڑھائی جائے تاکہ روپے کی قدر مستحکم ہو اور عوام کی قوتِ خرید میں اضافہ ہو۔ پوری دنیا میں پاکستان کی جو ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ اس کی بحالی کے اقدامات کیے جائیں۔ اس کے بعد اگر ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تو پھر تاریخ کی غلطیوں کو درست کرنے کے لئے آئینی و قانونی چارہ جوئی کا راستہ اختیار کیاجاسکتا ہے۔ انہی خدشات اور تفکرات کو سامنے رکھتے ہوئے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے مسلم امہ کے ٹائی ٹینک کو خطرے میں قرار دیا ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کو مسلم امہ کا لیڈر گردانا گیا تھا۔ یہ علیحدہ بحث ہے کہ پاکستان کو اس کا رول ملا یا نہیں۔ ؟
سردست جو مسئلہ درپیش ہے وہ پاکستان کی سالمیت اور بقاء کا ہے۔ اس میں ہمیں اپنے مسائل کی ترجیحات طے کرنا ہوں گی اور اس کی فہرست اسی حساب سے ترتیب دینا ہوگی کہ ہم کس طرح اپنے عوام کو ریلیف دیں۔پاکستان کی حفاظت کی ذمہ داری یقینا افواج پاکستان پر ہے۔ داخلی سلامتی کی ذمہ داری سول اداروں پر ہے اور نظریاتی سرحدوں کی ذمہ داری سیاست دانوں کے پاس ہے۔ یہ تمام ادارے اسٹیک ہولڈر ہیں ان سب پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کریں۔ عدالتیں بھی اس بات کا تعین کریں کہ معاشرے میں موجود جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کیسے روکی جائے؟ کیا ملک میں جرم و سزا کا تصور قائم ہو چکا ہے؟ مہذب دنیا میں معاشرے کے مختلف طبقات وسائل کی تقسیم پر اختلاف کرتے ہیں، اس پر طویل بحث و مباحثے کے بعد اپنا حق دلیل کے ذریعے منوا کر حاصل کرتے ہیں لیکن پاکستان کی موجودہ صورتحال قبائلی معاشرت کی عکاسی کر رہی ہے۔ لہٰذا تعلیم کو فروغ دے کر ہم انتہا پسندی اور اپنے درمیان موجود فروعی اختلافات کو ختم کرسکتے ہیں۔
تازہ ترین