• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

30 جون کو اپنی مدت پوری کرنے والا وفاقی بجٹ کورونا کی عالمگیر مہلک وبا کے باعث خدشات کی فضا میں تیار کیا گیا تھا۔ گو کہ اس ایک برس میں غیرملکی قرضوں کی مالیت میں مزید 17کھرب روپے کا اضافہ ہوا، مہنگائی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، فی کس آمدنی پرجمود طاری رہا، بیروزگاری بڑھی تاہم سالانہ اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق بعض شعبوں میں حیرت انگیز اشاریے دیکھنے میں آئے۔ بحیثیت مجموعی ترسیلاتِ زر میں غیرمعمولی اضافے سے زرمبادلہ کے ذخائر کو تقویت ملی۔ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے اس رپورٹ کے تناظر میں معیشت کو مستحکم قرار دیا ہے اور اپنے آئندہ پروگرام میں زراعت سمیت قومی پیداوار و برآمدات بڑھانے کا حکومتی عزم ظاہر کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2020-21کے بجٹ میں حکومتی اندازہ 2.1فیصد شرح نمو کا تھا جبکہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کا تخمینہ اس سے بھی کم تھا تاہم حکومتی فیصلوں سے مینو فیکچرنگ اور دیگر مدوں میں مراعات دی گئیں اس کے نتیجے میں عبوری شرح نمو 3.94فیصد رہی۔ کپاس کی فصل خراب ہونے کے باوجود زراعت میں شرح نمو 2.77فیصد رہی جبکہ اس کے منفی ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا تھا تاہم یہ نقصان گندم، چاول، گنا اور مکئی سے پورا ہوا۔ صنعت میں 3.6فیصد، خدمات کے شعبے میں مقرر کردہ ہدف 2.6کے برخلاف 4.4فیصد حاصل ہوا۔ رپورٹ کے مطابق لارج اسکیل مینو فیکچرنگ میں 9فیصد اضافہ ہوا جبکہ ترسیلاتِ زر نے ریکارڈ قائم کردیا اور اس وقت یہ 26ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہیں جو حکومتی اندازے کے مطابق مالی سال ختم ہونے تک 29ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔ اس ضمن میں عالمی بنک سمیت بعض دوسرے اداروں نے کورونا بحران کے باعث اس میں کمی کا امکان ظاہر کیا تھا۔ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ رقم آچکی ہے جبکہ اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر جو 2018-19میں اسی حکومت کے دور میں سات ارب ڈالر پر چلے گئے تھے۔ اب یہ 16ارب ڈالر گزشتہ چار سال کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے 2020-21اچھی کارکردگی کا سال رہا جس سے پاکستان کے گرے سے وائٹ لسٹ میں آنے کے امکانات روشن ہیں۔ ایف بی آر کو گیارہ ماہ میں خلاف توقع کل محصولات 42کھرب روپے جمع ہوئے جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 18فیصد زیادہ ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ 2019-20میں 4141ملین کا خسارہ ظاہر کررہا تھا۔ رواں سال جولائی سے مارچ کے مہینوں میں 95کروڑ 90لاکھ ڈالر (پلس) ہو گیا ہے۔ برآمدات جولائی تا مارچ کے دوران 18.3ارب ڈالر سے بڑھ کر 18.7کی سطح پر آگئیں۔ وفاقی وزیر خزانہ کے مطابق ریٹنگ اداروں نے ہماری کریڈٹ ریٹنگ بہتر بتائی ہے جو اس بات کی سند ہے کہ ہمارا استحکام کا پروگرام کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے جس کے بعد ہمیں پائیدار معاشی نمو کی طرف بڑھنا ہے۔ انہوں نے توانائی کے شعبے کو حکومت کے لئے بلیک ہول قرار دیتے ہوئے گردشی قرضوں، بجلی کے نرخوں پر تشویش کا اظہار کیا مزید برآں اس وقت سی پیک کے تحت بہت سے منصوبے پائپ لائن میں ہیں جن کے توسط سے ملک میں روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا ہونے چاہئیں۔ مالیاتی شعبے میں اصلاحات کی باتیں ہورہی ہیں، تعمیراتی صنعت ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ مہنگائی کی شرح 18فیصد کو چھو رہی ہے۔ پاکستانی روپیہ بدستور ڈالر کے دباؤ میں ہے۔ آئی ایم ایف نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی تلوار صارفین کے سر پر لٹکا رکھی ہے ان چیلنجوں کے ساتھ ساتھ بلا شبہ پی ٹی آئی حکومت معیشت کی بحالی پر بھر پور توجہ دے رہی ہے اس ضمن میں عوامی تعمیر و ترقی کے منصوبے کسی طرح نظر انداز نہیں ہونے چاہئیں۔

تازہ ترین