چہرے پہ میرا رنگ پریشانیوں کا ہے
……مرتضیٰ برلاس……
چہرے پہ میرا رنگ پریشانیوں کا ہے
دریا میں سارا زور ہی طغیانیوں کا ہے
خود رہبران قوم ہیں آلائشوں میں گم
ہم سے مگر مطالبہ قربانیوں کا ہے
احباب میرے اس طرح مجھ پر ہیں طعنہ زن
جیسے خلوص نام ہی نادانیوں کا ہے
ساحل جو کٹ کے گرتے ہیں دریا کی گود میں
کیا یہ قصور بہتے ہوئے پانیوں کا ہے
انساں نہیں ہے کوئی بھی سائے ضرور ہیں
منظر ہر ایک شہر میں ویرانیوں کا ہے
کچھ خوف احتساب نہ سود و زیاں کا ڈر
یہ فائدہ تو بے سر و سامانیوں کا ہے
محبتوں میں دکھاوے کی دوستی نہ ملا
……بشیر بدر……
محبتوں میں دکھاوے کی دوستی نہ ملا
اگر گلے نہیں ملتا تو ہاتھ بھی نہ ملا
گھروں پہ نام تھے ناموں کے ساتھ عہدے تھے
بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا
تمام رشتوں کو میں گھر پہ چھوڑ آیا تھا
پھر اس کے بعد مجھے کوئی اجنبی نہ ملا
خدا کی اتنی بڑی کائنات میں میں نے
بس ایک شخص کو مانگا مجھے وہی نہ ملا
بہت عجیب ہے یہ قربتوں کی دوری بھی
وہ میرے ساتھ رہا اور مجھے کبھی نہ ملا