متاعِ ضمیر کے کالم نگار سید احتشام ضمیر 4مئی 2015ء کو اچانک اِس دارِ فانی سے کُوچ کر گئے۔اس واقعے کو ایک برس گزر گیا پہلی برسی کے موقع پریہ سطورِ درد چند یادوں اور باتوں کیساتھ پیشِ خد مت ہیں۔ یہ ایک برس اہلیان ضمیر کیلئے کیسے بیتا کُچھ نہ پُو چھیے۔ مرزا غالب کے یہ اشعار حالتِ زار کی عکاسی کے طور پر پیش ہیں۔
سب کہاں کُچھ لالہ و گُل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صُورتیں ہونگی کہ پنہاں ہو گئیں
جوئے خُوںآنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شام فراق۔میںیہ سمجھو ں گا کہ دو شمعیں فروزاں ہو گئیں۔
متاعِ ضمیر کے عنوان سے کالم لکھنے کا سفر برادرِ مرحُوم نے اپنے والد محترم سید ضمیر جعفری کو ہدیہ عقیدت پیش کرنے کیلئے شروع کیا تھا۔ ان کالموں میں بڑی کثرت سے ضمیر جعفری صاحب کے اشعاراور تحریروں کا حوالہ حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں ملتا رہا۔یہ تحریریں یقیناًاندھیروں میں روشنی کی ایک کِرن ہیں جو ایک بہترمستقبل کی طرف رہنمائی بھی کرتی ہیں ۔ بھائی جان ایک درد مند دل رکھتے تھے اور وہی دردمندی اور وطن سے محبت کی لو اُنکی تحریروں میں پائی جاتی ہے۔ وہ ہمیشہ معاشرتی ناہمواریوں او ر ناانصافیوںکے خلاف بڑے خوبصورت اور لطیف انداز میں رقم طراز رہے۔لہٰذا مرحوم کی تصنیف ــ"متاع ضمیر "اُنکی عظمت ِ فکر کو ہمیشہ زندہ رکھے گی اور یہ تحریریں اُن کے والدِمرحوم کیلئے یقیناً باعثِ روحانی آسودگی اور ہدیہ عقیدت رہیں گی۔ اِن تحریروں میں موجودہ اہم قومی مسائل کی نشاندہی کیساتھ کیساتھ ایک دعوتِ فکر بھی ہے۔ اپنی ادبی چاشنی کیساتھ یہ دلکُشا اور چشم کُشا تحریریں یقیناً ایک ادبی میراث کے طور پر زندہ رہیں گی۔بابائے ظرافت سید ضمیر جعفری کے فرزندِ ارجمند نے اپنی ادبی میراث کا وصف اپنی کالم نگاری میں خُوب نبھایا ہے اور اپنی فوج کی جرنیلی کو اس میراث پر اثر اندازنہیں ہونے دیا۔ انہوں نے اپنی عسکری زندگی خصوصاًآئی ایس آئی میں تعیناتی کے مُشکل دور کو اپنے کالموں سے شعوری طور پر ہمیشہ دور رکھا اور سیاسی قصیدوں یا کلمہ شر سے ہمیشہ اجتناب کیا ۔ اُن کا موضوع وطنِ عزیز اور اسکے معاشرتی و قومی مسائل رہے۔جن کا اظہار خیال انتہائی دلچسپ اور شگفتہ پیرائے میں کیا۔ متاعِ ضمیر کے کالموں کی دلچسپ خوبی یہ ہے کہ یہ اپنے اندر ضمیر جعفری مرحوم کی ادبی و سماجی زندگی کی دلچسپ جھلکیاں بکھیرتے ہیں اور ذہن میں یادوں کا ایک دریچہ کھل جاتا ہے ۔ مختلف الا قسام موضوعات کی بناء پر یکسانیت بھی محسو س نہیں ہوتی۔ لہٰذا بیٹے نے باپ کیساتھ اپنی والہانہ محبت کے اظہار کا صحیح حق ادا کیا ہے۔ یہ تحریریں کالم نگار کی شخصیت کی عکاس بھی ہیں اور قاری کیلئے اُنکی شخصیت کو سمجھنے میں کوئی مُشکل پیش نہیں آتی۔کامیاب کالم نگاری کا راز ادبی صلاحیتوں کے علاوہ موضوعات کے انتخاب پر بھی ہوتا ہے جن کا قارئین کیلئے دلچسپ ہونا اور حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے اہم ہونا ضروری ہے۔ اس لحاظ سے متاعِ ضمیر کے عنوانات نہایت دلچسپ اور جاندار ہیں۔ چند ایک کا ذکر پیش خدمت ہے مثلاً ــ"بیرونی ممالک کا کامیاب دورہ ۔ اسلامی کانٹا۔ قومی خسارے کا خسرہ۔ سیاسی کمزوری کا مردانہ علاج۔ ڈینگی قاتل ۔ اے پی سی کی گولی۔ اپنی خرابیوں کا ہے مختصر فسانہ۔ بھینس کے آگے بین ۔ توجہ دلائو نوٹس اور مزید حماقتیں "۔ یہ وہ کالم ہیں جو ہماری سیاسی و سماجی دشواریوں کا گوشوارہ ہیں اور ساتھ ساتھ علاجِ کی نشاندہی بھی انتہائی لطیف پیرائے میں کرتے ہیں۔ اِ ن تحریروں میں ہم ایک دردمند پاکستانی کے دِل کی آواز سُن سکتے ہیں ۔ جو معاشرتی مسائل اور نا انصافیوں کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔ مرحُوم کی یہ تحریریں اُنکی عظمتِ فِکر کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔ آخر میں ضمیر جعفری صاحب کی ایک نظم "بیٹے احتشام کے نام "جو اُنکے پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکُول میں کامیاب ہونے پر تحریر کی گئی پیشِ خِدمت ہے۔
اے مرے نُور نظر لختِ جگر جان پدر
مری شاخِ باثمر ، مری دعُائے بارور
تُو مرے گھر کا اُجالا تُو مرے رستے کا نُور
تُو مری تہذیب کا ورثہ، تمدن کا شُعور
ہم نے بچپن میں تجھے پالا وطن کے نام پر
بارک اللہ ۔ آج دے ڈالا وطن کے نام پر
پاک لشکر کا جواں بننا مُبارک ہو تجھے
اپنا پر چم تھام کر چلنا مُبارک ہو تجھے
زندگی کا اِس سے بڑھکر بانکپن کوئی نہیں
تیر ی وردی سا مُقدس پیرہن کوئی نہیں
احتشام ضمیر خُدا وند کریم آپکی لحد پر اپنی رحمتوں کی شبنم افشانی کرے۔ آمین