• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنڈورا ایک نہیں دو ہیں۔ ایمرجنسی پلس کی طرح پنڈورا پلس…پہلا پنڈورا مغربی مونث ہے جس کے باکس میں بدروحیں ، برائیاں اور برے کام چھپائے گئے تھے۔ یہ کہاوت ہے کہ روایت اس کی تصدیق مغربی لڑیچر سے بھی نہیں ہو سکتی ۔ مادام پنڈورا بہت پہلے مر گئی لیکن جاتے جاتے اپنا پنڈورا باکس پاکستان کے حوالے کر گئی ۔ اس بیچاری کو معلوم نہیں تھا ہمارے پاس پہلے ہی پنڈورا موجود ہے ۔ ایٹمی دھماکہ سے لے کر بجٹ دھماکے تک ہم ہر معاملے میں خود کفیل ہیں ۔ہماری خود مختاری اور خود کفالت کا یہ عالم ہے کہ نیٹو افواج ہماری محتاج ہیں۔ چین و عرب ہمارے پشتی بان ۔ ہم نے آئی ایم ایف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال رکھی ہیں اور ہم کشکول پر لعنت بھیجتے ہیں۔ ہمارا قومی مسئلہ اصغر خان پٹیشن ، دہرے خطوط، این آر او کے جادوگر اور آرٹیکل 6کے مبلغین و متاثرین ہیں۔ اس لئے دال چپاتی ، ٹھنڈے چولہے ، گیس بجلی ، نوکری روزگار، بزنس ، شکر دودھ، چائے یا دوائی بچت نہ سیونگز اسکیمز۔ یہ پاکستانیوں کے مسائل نہیں ہیں نہ ہی غریبوں کے ۔ جسے خود کفالت پر شک ہو وہ پارلیمینٹ کے اندر ہونے والی تقریریں سن لے۔ ان تقریروں کے نتیجے میں ہم پہلے ہی ڈرون فتح کر چکے ہیں اور جو فتوحات ابھی باقی ہیں ان تک پہنچنے کے لئے پارلیمنٹ ہاوٴس سے پنڈورا تک محض چودہ منٹ کی ڈرائیو ہے ۔
پنڈورا پنڈی اسلام آباد کے سنگم آئی جے پرنسپل روڈ پر واقع پوٹھوہار کا مشہور گاوٴں ہے ۔ ماضی میں گولڑہ شریف پہنچنے کے لئے پنڈورا چوک سے سڑک کے راستے بذریعہ سرائین (حالیہ پیر ودھائی ) چہان ( حالیہ سبزی منڈی ) مستال ( حالیہ اسلامک انٹرنیشنل یو نیورسٹی )اور پھر میرے قبیلہ سے تعلق رکھنے والے انگریزوں کے باغیوں کے گاوٴں میرا بادیہ (حالیہ ایف 12) سے ہو کر جانا پڑتا تھا۔ مادام پنڈورا سے لے کر پوٹھو ہاری پنڈورا تک دونوں کی وجہ شہرت ایک جیسی ہے۔ مغربی مادام کا پنڈورا مصیبتوں کا صندوق ہے ۔ ہمارا پنڈورا ملک بھر میں تب مشہور ہوا جب ایک سابق گورنر پنجاب نے یہاں مشہور زمانہ پولیس مقابلے اسٹیج کرائے ۔ آج کل پنڈورا کے بکس کا تذکرہ عام ہے ۔ ہماری جمہوریت چلی تھی کشکول کو تلاش کرنے تاکہ اسے توڑکر ہم اپنا نام عالمی منگتوں کی فہرست سے نکال لیں لیکن چالاک بیوروکریسی اور خطرناک مشیروں نے نومولود جمہوریت کے ہاتھ میں امرود کے بجائے ہاتھی پکڑا دیا ہے۔ کہتے ہیں پرانے زمانے میں کسی گاوٴں کا فو جی عالمی جنگ لڑنے گیاتھا ۔ اس نے جو بھی دورانِ سفر دیکھا اس کا نام اپنی ڈائری میں لکھ دیا ۔ فوجی کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس کے گاوٴں میں ہاتھی آگیا لوگوں نے گو شت کا چلتا پھرتا پہاڑ پہلی دفعہ دیکھا تھا لہٰذا بھاگم بھاگ اپنے چالاک مشیر کی طرف بھاگے۔ اس نے ڈائری کھولی اور یاد کیا کہ جس دن گو شت کا یہ پہاڑ اس نے دیکھا اس دن کی ڈائری کے صفحہ پر دو نام لکھے تھے ۔ ہاتھی اور امرود۔ چنانچہ بے خوف مشیر نے بے دھڑک بیان دیا کہ دوستو ”یہ گو شت کا پہاڑ یا تو ہاتھی ہے یا امرود…“۔
جن لو گوں نے قوم کے ہاتھ میں امرود کے بجائے ہاتھی پکڑا دیا ہے آج کل ان کے چہرے پر نور ہی نور ہے بلکہ سکون نور سے بھی بڑھ کر ہے۔ جن کو ہاتھی پکڑایا گیا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ عنقریب سب سے بڑے شکاری کا ایوارڈ لینے والے ہیں لیکن ہاتھیوں کی تاریخ یہ ہے کہ ان کی ذہانت صرف دو باتوں کے گرد گھومتی ہے۔ ایک ہاتھی کی دشمنی کے گرد اور دوسرے ہاتھیوں کے اجتماعی غصے اور ری ایکشن کے گرد۔ جس ہاتھی کو نکیل ڈال کر برسر میدان نچایا جاتا ہے اس کی تلاش میں اس کا غول چل پڑتاہے ۔ آخری معرکہ ہاتھی اور امرود کے درمیان ہو گا جس کی تاریخ کا اعلان کوئی وکیل نہیں کر سکتا ۔ تاریخ کا اعلان کرنا یا تاریخ مقرر کرنا اور اسے تبدیل کرنا یہ عدالت کا صوابدیدی اختیار ہے۔ مجسٹریٹ درجہ سوم سے لے کر عالمی عدالت انصاف تک ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے ۔ پنڈورا سے پنڈورا تک کی تاریخ کا سبق بھی ایک ہی جیسا ہے اور وہ یہ کہ تاریخ سے کو ئی سبق نہیں سیکھتا ۔ جن دنوں میں سعودی عرب میں زیر تعلیم تھا میرے ایک دوست سے کسی نے پو چھا کہ تم نے سعودی عرب سے کیا سیکھا؟ اس نے جواب دیا، عربی کھانے بنانے کی ترکیبیں ۔ یوں لگتا ہے کہ ہمارے زمانہ طالب علمی کی تاریخ ابھی تک اپنے آپ کو دہرا رہی ہے کیونکہ جزیرہ عرب جانے والے وہاں سے وہی لے کر واپس آرہے ہیں۔ جو پہلے والے سیکھتے تھے۔ شاید اب عربی کھانوں کی ڈشوں میں لندن اور امریکہ کی آمیزش سے نئی ترکیبیں بھی سامنے آگئی ہیں۔ میں نے ڈیڑھ سال پہلے ایک عرب سفیر کے ہاں کھانا کھایا ہزہائی نیس نے مجھ سے پوچھا ایکسی لینسی کھانا کیساتھا؟ میں نے برادر اسلام سے مکمل بے تکلفی برتی اور عرض کیا بالکل ایمبسڈرہو ٹل جیسا ۔ موصوف بڑے نکتہ فہم نکلے فرمانے لگے یہ عربی کھانا نہیں تھا یہ عربوں کا کھانا تھا۔
عربوں کا کھانا کھانے کے لئے عربستان جانا پڑتا ہے لیکن جنہوں نے سیکڑوں، ہزاروں، لاکھوں یا کروڑوں نہیں بلکہ اربوں کھانے کا پروگرام کرنا ہو اسلامی جمہوریہ پاکستان اُن کے لئے جنت ہے اور کیوں نہ ہو یہاں ٹیکس اور جوتے دونوں غریبوں پر پڑتے ہیں۔ کبھی کبھی تو فیصل آباد کے غریبوں پر کلہاڑیاں بھی چل جاتی ہیں۔ پنڈورا سے پنڈورا تک دونوں مشرف بہ پاکستان ہو چکے ہیں۔ اس لئے اب منشی کی ہدایت اور ریاست کے قانونی دماغ کے دستخطوں سے جعلسازی اور فرض کاری کا ریکارڈ بھی پاکستانی دفتروں میں تیار ہونے لگا ہے۔ پاکستانی دفتروں کی تاریخ کیا ہے کوئی ہم سے پوچھے، اور جو ہم سے نہ پوچھنا چاہے وہ بھٹو ریفرنس پڑھ لے۔ جہاں ہر صفحے پر کئی کئی مسعود محمود اور سلطانی گواہ چھائے ہوئے ہیں۔ بھٹو ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب نے شہید وزیراعظم کے خلاف پیش ہونے والی سرکاری وکالتی ٹیم کے ایک رکن کی طرف سے پیش کئے گئے بیانِ حلفی پر بہت دلچسپ مگر تاریخی ریمارکس دیئے تھے۔ پہلے ریمارکس سُنیئے پھر تبصرہ ہو گا۔ چیف جسٹس نے کہا اپنے اقتدار اور اختیار کے دنوں میں ان لوگوں کا ضمیر سویا رہتا ہے، جونہی یہ حکومت اور اختیار جاتا ہے وعدہ معاف گواہوں کا ضمیر جاگ اُٹھتا ہے۔
آج کل مارگلہ کا شاہین ہر روز ایسی داستانِ ہوشربا سُناتا ہے کہ ہمیں روزانہ چیف جسٹس کے ریمارکس یاد آتے ہیں کیونکہ اسلام آباد کے دفتروں اور سٹرکوں پر ایسے لوگوں کے جتھے اور جلوس گھوم رہے ہیں جن کا سویا ہوا ضمیر سخت گرمی کے مہینے یعنی مئی میں تازہ تازہ جاگا ہے۔ اسلام آباد کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہہ رکھا ہے
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے رہا کرو
آئی جے پرنسپل روڈ والے پنڈورا کا محل وقوع بھی تاریخی ہے۔ اس کے بغل میں اوجڑی کیمپ۔ اس کے جنوب میں جی ایچ کیو اور اس کے شمال میں آبپارہ والے رہتے ہیں۔ پنڈورا سے آبپارہ تک کا فاصلہ اور آبپارہ سے پارلیمینٹ تک کا فاصلہ اور پارلیمینٹ سے میرے رشتہ داروں کے ایک اور گاؤں بھارہ کہو تک کا راستہ برابر ہے۔ بھارہ کہو کی پہلی وجہ شہرت مری کا گیٹ وے اور پھر پہلی یا دوسری وجہ شہرت ٹرپل ون بریگیڈ ہے۔ وکیلوں کا کام جادوگروں سے مختلف ہوتا ہے اور نجومیوں سے بھی بالکل مختلف ہے۔ اس لئے وکالت نامہ پڑھنے والوں سے درخواست ہے کہ وہ اس میں جادو، ٹونہ یا پیشگوئی تلاش کرنے کی ناکام کوشش نہ کریں۔ میں انہیں یہ بھی یقین دلاتا ہوں کہ جس طرح اُن کے بینک اکاؤنٹس پر زکوٰة کی کٹوتی کے علاوہ انکم سپورٹ پروگرام کی 0.5 فیصد کٹوتی اور رقم نکلوانے پر0.3 فیصد کٹوتی انکم ٹیکس اور ودہولڈنگ کی کٹوتی اور پانچ مرلے کے گھر پر جائیداد ٹیکس کی کٹوتی سے غریبوں کو کوئی نقصان نہیں ہو گا بلکہ یہ عوام دوست اور آئی ایم ایف مخالف اقدامات ہیں۔ اسی طرح پاکستان ہر حال میں ہر طرح سے پنڈورا باکس کا واحد مالک اور مختار رہے گا۔ ان دو پنڈورا باکسوں کے درمیان کھینچی گئی ڈیورنڈ لائن کو کراس کرنے کی اجازت ہم کسی کو نہیں دیں گے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہم نے رمضان شریف میں کبھی کسی کو مہنگائی میں اضافہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔
پسِ تحریر… جن نمائشی سمجھداروں کو آج کا وکالت نامہ سمجھ آ گیا ہے اُن سے مودبانہ درخواست ہے کہ وہ اُن کو سمجھا دیں جو پیدائشی ناسمجھ ہیں یا فرمائشی ناسمجھ ہیں۔
تازہ ترین