اسلام آباد (فاروق اقدس) قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پاکستان مسلم لیگ ( ن) کے صدر میاں شہباز شریف ایوان میں تین روز کی بدترین ہنگامہ آرائی اور حکومتی اراکین کی جانب سے ان کی تقریر روکنے کی تمام کوششوں کے بعد جمعرات کو اپنی وہی تقریر کرنے میں کامیاب ہوگئے جو انہوں نے پہلے روز ہی زیادہ سے زیادہ تین گھنٹوں میں ختم کر دینی تھی۔ ان کی تقریر شروع ہوتے ہی اپوزیشن کے ایک رکن نے گزشتہ روز کی طرح ایوان میں احتجاج شروع کرنے کیلئے سیٹی بجائی لیکن ’’احتجاج کا کھیل‘‘ شروع نہ ہوسکا اور میاں شہباز شریف نے اپنی تقریر پورے اطمینان سے کی اس دوران وفاقی وزراء اور حکومتی ارکان کی تعداد ایوان میں سکوت‘‘ سے بیزار ہوکر ایوان سے باہر چلے گئے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سوائے’’ سرکاری میڈیا‘‘ کے کسی’’ نجی میڈیا‘‘ کو پارلیمنٹ ہائوس میں کوریج کی اجازت نہیں اس ضمن میں باضابطہ طور پر پابندی ہے لیکن اس کے باوجود ایوان میں تین روز تک ہونیوالی بدترین ہنگامہ آرائی اور گالیوں کے تبادلے کے مناظر نجی چینلز اور سوشل میڈیا پر دیکھے گئے جس کا کریڈٹ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے اراکین لے رہے ہیں جن میں خواتین اراکین پیش پیش ہیں۔ واضح رہے کہ ہنگامہ آرائی کے موقعہ پر اپوزیشن کی نشستوں سے کوریج کے تمام اہم مناظر اپنے موبائیلز سے ریکارڈ کرنے میں اپوزیشن کی ارکان خواتین ہی سب سے زیادہ متحرک اور فعال تھیں جن میں مسلم لیگ ( ن) کی رکن جو ایک سابق وزیر کی بھانجی ہیں۔ انہوں نے اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے دوران مداخلت اور سکیورٹی کے انتظامات سمیت حکومتی ارکان کی ہلڑ بازی کے سب سے زیادہ مناظر وائرل کئے تاہم اب یہ خواتین اس خدشے کا شکار ہیں کہ ایوان میں موبائل فون لانے پر پابندی عائد نہ کردی جائے تاہم حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ ہائوس کی سرگرمیوں اور اجلاس کی کوریج کو سرکاری میڈیا تک محدود رکھنے کا جو فیصلہ کیا گیا ہے اس بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ اجلاس کی کارروائی کو بامقصد اور سنجیدگی سے چلانے کیلئے ماضی کے برعکس اس مرتبہ جو ضابطہ اخلاق طے کیا گیا تھا وہ یکطرفہ نہیں تھا بلکہ اپوزیشن کی ٹیم کے ارکان نے بھی ان پر رضامندی ظاہر کی تھی اور یہ اسی ضابطہ اخلاق کا نتیجہ تھا کہ اپوزیشن لیڈر کی طویل ترین تقریر میں کوئی مداخلت نہیں ہوئی اور نہ ہی ان کی تقریر کے جواب میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے جو طویل تقریر کی اس میں اپوزیشن کے کسی رکن نے خلل ڈالا۔ تاہم جس طرح میاں شہباز شریف کی تقریر کے دوران حکومتی نشستیں خالی تھیں اسی طرح اسد عمر کے اظہار خیال کے دوران اپوزیشن نشستوں پر چند ارکان ہی موجود تھے جن کے چہروں سے بیزاری اور ایوان کی کارروائی سے لاتعلقی دکھائی دے رہی تھی جبکہ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک واپس لینے کا فیصلہ بھی ایوان میں ’’افہام و تفہیم‘‘ کی فضا برقرار رکھنے کیلئے کیا گیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے رانا تنویر نے تحریک واپس لینے کے حوالے سے سپیکر اسد قیصر کو بتایا جبکہ پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف نے رانا تنویر کی تائید کی۔