کراچی(ٹی وی رپورٹ) وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ اپوزیشن پاناما لیکس کا معاملہ 2018ء تک لے کر جانا چاہتی ہے، اپوزیشن اگر اسمبلی سے استعفے دیتی ہے تو یہ نظام کیلئے ٹھیک نہیں ہوگا،آفتاب احمد جن لوگوں کی کسٹڈی میں تھا وہی لوگ اس کی ہلاکت کے ذمہ دار ہیں۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں ایم کیو ایم کے رہنما کنور نویدجمیل،پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی اور دفاعی تجزیہ کار شاہد لطیف بھی شریک تھے۔کنور نوید جمیل نے کہا کہ آفتاب احمد کیس کی انکوا ئر ی رینجرز سے نہ کروائی جائے، آفتاب احمد کی ہلاکت کی حقیقت پسندانہ انکوائری کی گئی تو ضرور قبول کریں گے، وزیراعظم اخلاقی طور پر پاناما لیکس تحقیقا ت مکمل ہونے تک استعفیٰ دید یں ،احتساب ہر دور کا ہونا چاہئے لیکن اس کی ابتداء پاناما لیکس سے کی جائے، پاناما لیکس تحقیقات میں ذمہ داروں کی سزا کا تعین بھی سپریم کورٹ کو کرنا چاہئے۔سعید غنی نے کہا کہ سندھ میں لاپتہ افراد اور دورانِ حراست ہلاکتوں کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی بھی ہے، اپوزیشن جماعتوں کی اکثریت وزیراعظم سے استعفے کے مطالبہ پر متفق ہے ،چیف جسٹس کو ٹی او آرز طے کرنے کا اختیار نہیں ہے، حکومت پاناما لیکس معاملہ پر تاخیر کر کے اپنے لئے مسائل پیدا کرے گی۔شا ہد لطیف نے کہا کہ کراچی آپریشن کے اب تک اچھے نتائج نکلے ہیں۔رانا ثناء اللہ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم کے کارکن آفتاب احمد کی دورانِ حراست تشدد اور ہلاکت کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کے بعد ذمہ داروں کو سزا دی جانی چاہئے، قانون کسی ملزم سے شہادت حاصل کرنے کیلئے تشدد کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے، اگر دورانِ حراست تشدد سے کسی کی ہلاکت ہوجاتی ہے تو تشدد کرنے والے قتل کے مجرم ہیں، آفتاب احمد جن لوگوں کی کسٹڈی میں تھا وہی لوگ اس کی ہلاکت کے ذمہ دار ہیں۔رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن پاناما لیکس کا معاملہ 2018ء تک لے کر جانا چاہتی ہے، پاناما لیکس کرپشن پکڑنے کا نہیں سیاسی ایشو ہے، پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ محاذ آرائی کی پالیسی اختیار کر کے ہی زندہ رہا جاسکتا ہے، اپوزیشن اس معاملہ کو جلسے جلوسوں کیلئے کسی نہ کسی صورت میں زندہ رکھے گی، حکومت نے اپنے ٹی او آرز انکوائری کمیشن کو دیدیئے ہیں، اب وہ واپس نہیں لیے جاسکتے ہیں، اپوزیشن اپنے ٹی او آرز بھی چیف جسٹس کو دیں ،چیف جسٹس جن ٹی او آرز کو بہتر سمجھیں گے اسی کے مطابق کارروائی کرلیں گے، اپوزیشن اگر اسمبلی سے استعفے دیتی ہے تو یہ نظام کیلئے ٹھیک نہیں ہوگا۔ کنور نوید جمیل نے کہا کہ آفتاب احمد کی دورانِ حراست ہلاکت پر آرمی چیف نے نوٹس لے لیا لیکن وفاقی حکومت کی طرف سے بیان تک نہیں آیا ہے، ایم کیو ایم کے کارکنوں کی زیرحراست ہلاکت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، متحدہ کے بہت سے کارکنان کو سادہ لباس اہلکاروں نے گرفتار کیا جس کے بعد ان کی تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوئیں، متحدہ کے 24 سے زائد کارکنوں کا ماورائے عدالت قتل اس وقت ہوا جب ان کی عدالت میں ان کی پٹیشنیں دائر تھیں۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم لاپتہ افراد کیلئے کمیشن سے کراچی میں لاپتہ افراد کے خاندانوں نے در خو ا ست کی تو انہیں جج صاحب نے استخارہ نکلوانے کا مشورہ دیا، پارلیمنٹ میں بھی اگر کسی سوال پر اسٹیبلشمنٹ کا اعترا ض آجائے تو اسپیکر اسمبلی کہتے ہیں اس کا جواب نہیں آسکتا۔ کنور نوید جمیل نے کہا کہ آفتاب احمد کی ہلاکت کی حقیقت پسندانہ انکوائری کی گئی تو ضرور قبول کریں گے ، انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اخلاقی طور پر پاناما لیکس تحقیقات مکمل ہونے تک استعفیٰ دیدیں، احتساب ہر دور کا ہونا چاہئے لیکن اس کی ابتداء پاناما لیکس سے کی جائے، پاناما لیکس تحقیقات میں ذمہ داروں کی سزا کا تعین بھی سپریم کورٹ کو کرنا چاہئے۔سعید غنی نے کہا کہ سندھ میں لاپتہ افراد اور دورانِ حراست ہلاکتوں کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی بھی ہے، نظام کی خرابی کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے تو سیاسی مخالفین رکاوٹیں ڈالتے ہیں، سیکیورٹی ادارے بہت اچھا کام کررہے ہیں لیکن ان پر جب ایسا الزام لگ جاتا ہے تو ان کی ساری اچھائیاں ضائع ہوجاتی ہیں،۔سعید غنی نے کہا کہ حکومت سے ٹی او آرز پر کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے، حکومت اپوزیشن کے ٹی او آرز مسترد کر کے اپنے کام میں لگ جاتی ہے تو اپوزیشن خاموش نہیں بیٹھے گی، حکومت تاخیر کر کے اپنے لئے مسائل پیدا کرے گی، وزیراعظم خود کو احتساب کیلئے پیش کرچکے ہیں تو انہیں اب ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کی اکثریت وزیراعظم سے استعفے کے مطالبہ پر متفق ہے ، صرف دو جماعتیں کہتی ہیں اس موقع پر استعفے کا مطالبہ نہیں کیا جائے، اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے طے ہوا کہ فی الوقت وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا، اپوزیشن کے ٹی او آرز متفقہ ہیں، 1956ء ایکٹ کے تحت قائم کمیشن کے پاس سول کورٹ کے اختیارات ہوں گے، چیف جسٹس کو ٹی او آرز طے کرنے کا اختیار نہیں ہے، حکومت جو ٹی او آرز انہیں بھیجے گی وہی ٹی او آرز طے ہوں گے،اپوزیشن کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ اگر وزیراعظم استعفے نہیں دیتے تو اپوزیشن کو اسمبلیوں سے استعفے دیدینے چاہئیں۔شاہد لطیف نے کہا کہ چند اہلکاروں کے انفرادی عمل سے اداروں پر دھبہ نہیں لگاناچاہئے، کراچی آپریشن کے اب تک اچھے نتائج نکلے ہیں، سب متفق ہیں کہ رینجرز نے کراچی میں امن قائم کیا ہے، آفتاب احمد کے دورانِ حراست قتل پر آرمی چیف اور ڈی جی رینجرز نے فوری طور پر انکوائری کا حکم دیا ہے، یہ انکوائریز بہت سنجیدہ نوعیت کی ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو اپوزیشن کے ٹی او آرز پر غور کرنا ہوگا، الزامات وزیراعظم کے اوپر ہیں اس لئے قانوناً اور اخلاقاً حکومت ازخود ٹی اوا ٓرز نہیں بناسکتی ہے، پاناما لیکس کا معاملہ وقت گزرنے کے ساتھ بگڑتا جائے گا۔