ڈاکٹر فاطمہ حسن
یادوں کی تند و تیز ہوا میں اڑتے اوراق کو پکڑنا، سمیٹنا اور یکجا کر کے لکھنا وہ بھی مشتاق احمد یوسفی جیسی شخصیت پر بہت مشکل کام ہے۔ ویسے بھی قلم اور آزمائش لازم و ملزوم ہے۔ اس آزمائش کا صحیح اندازہ اچھی کتاب اور شاہکار تخلیق کرنے والے پر لکھتے ہوئے ہوتا ہے۔ خصوصاً وہ مصنف جس کے کام اور شہرت میں تناسب و ہم آہنگی ہو۔ مشتاق احمد یوسفی ہمارے عہد کے وہ خوش قسمت ترین نثر نگار تھے جن کی شہرت کی بنیاد پانچ ایسی کتابوں پر ہے جس نے اردو کے نثری اثاثے کو مالا مال کر دیا ہے۔
خصوصاً طنز و مزاح کے باب میں ہر اعتبار سے سنجیدہ حوالہ مشتاق احمد یوسفی ہی ہیں۔ اعلیٰ ادبی سطح کی نثر میں الفاظ اور جملوں کی ساخت سے بہت گہری بات میں لطیف طنز پیدا کر دینا ان کا امتیاز ہے۔ کرب کی اس انتہا پر تخلیقی اظہار کرنا جہاں رونے کی جگہ ہنسی آجائے اور کبھی ہنستے ہوئے آنکھیں بھیگ جائیں یوسفی کا کمال ہے۔
ایسا مزاح پیدا کرنے کے لیے جس مشاہدے ، تجربے اور مطالعہ کی ضرورت ہے اور اظہار و بیان پر جو غیر معمولی دسترس اور محنت چاہئے ، مشتاق احمد یوسفی کی تحریراس کی اعلیٰ مثال ہے۔ انہوں نے اپنی پہلی کتاب ’چراغ تلے‘ سے قارئین کی توجہ حاصل کر لی تھی۔ اس وقت بھی انہیں اپنی تحریر پر جو اعتماد تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ پہلی کتاب کا مقدمہ خود لکھا۔ ’پہلا پتھر‘ کے عنوان سے اس مقدمے میں اپنے مزاح نگار ہونے کا جواز یوں پیش کرتے ہیں.
’’اور اگر ڑاں پال سارتر کی مانند ’’دماغ روشن و دل تیرہ ونگہ بیباک‘‘ ہو تو جنم جنم کی یہ جھنجھلاہٹ آخر کار ہر بڑی چیز کو چھوٹی دکھانے کا ہنر بن جاتی ہے۔ لیکن یہی زہرِ غم جب رگ و پے میں سرایت کر کے لہو کو کچھ اور تیز و تند و توانا کر دے تو نس نس سے مزاح کے شرارے پھوٹنے لگتے ہیں۔ عملِ مزاح اپنے لہو کی آگ میں تب کر نِکھر جانے کا نام ہے۔ لکڑی جل کر کوئلہ بن جاتی ہے اور کوئلہ راکھ۔ لیکن اگر کوئلے کے اندر کی آگ باہر کی آگ سے تیز ہو تو پھر وہ راکھ نہیں بنتا، ہیرا بن جاتا ہے۔
مجھے احساس ہے کہ اس ننھے سے چراغ سے نہ کوئی الا? بھڑک سکا اور نہ کوئی چتا دہکی۔ میں تو اتنا جانتا ہوں کہ ا پنے چاک دامنی پر جب اور جہاں ہنسنے کو جی چاہا، ہنس دیااور اب اگر آپ کو بھی اس ہنسی میں شامل کر لیا تو اس کو اپنی خوش قسمتی تصور کروں گا‘‘
گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ ان کے مضامین مقبولِ خاص و عام ہوتے گئے۔ ’چراغ تلے ‘کے بعد ’خاکم بدہن‘ آئی۔ اس کتاب کا دیباچہ بھی انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں دستِ زلیخا کے عنوان سے لکھا۔ مشتاق احمد یوسفی بنیادی طور پر فلسفے اور انگریزی ادب سے بہرہ مند ہوئے تھے۔ ان کی تعلیم فلسفے کی تھی اور طالب علمی کے زمانے میں انگریزی کے بہترین مقرر بھی رہے تھے۔ عالمی ادب سے ان کا شغف اور مطالعہ کی جھلک ان کی تحریروں میں جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ ’چراغ تلے‘ کے مقدمے میں ڑاں پال سارترکا حوالہ ہے تو ’خاکم بدہن‘ کا دیباچہ ڈاکٹر سیموئل جونسن کے قول سے شروع کیا۔ وہ لکھتے ہیں،
’’ بابائے انگریزی ڈاکٹر سیموئل جونسن کا یہ قول دل کی سیاہی سے لکھنے کے لائق ہے کہ جو شخص روپے کے لالچ کے علاوہ کسی اور جذبے کے تحت کتاب لکھتا ہے اس سے بڑا احمق روئے زمین پر کوئی نہیں۔ ہمیں بھی اس کلیے سے حرف بہ حرف اتفاق ہے، بشرطیکہ کہ کتاب سے مراد وہی ہے جو ہم سمجھے ہیں یعنی چیک بک یا روکڑ بہی۔ دیباچے میں یہ وضاحت از بس ضروری ہے کہ یہ کتاب کسی مالی یا الہامی دبا? سے نڈھال
ہو کر لکھی گئی۔ چنانچہ جو اہلِ قلم ، ذہین ہیں وہ مشک کی طرح خود بولتے ہیں۔ جو ذرا زیادہ ذہین ہیں وہ اپنے کندھے پر دوسروں سے بندوق چلواتے ہیں۔ خود اپنا دیباچہ لکھنے میں وہی سہولت اور فائدے مضمر ہیں جو خود کشی میں ہوتے ہیں۔ یعنی تاریخِ وفات، آلۂ قتل اور موقعہ واردات کے انتخاب صاحبِ معاملہ خود کرتا ہے۔ ‘‘
ان دو کتابوں کے جملے قارئین نے اشعار کی طرح یاد کر لیے ہیں اور جب مشتاق احمد یوسفی کی آب بیتی ’زر گشت‘ سامنے آئی تو پڑھنے والے حیران ہو گئے۔ گزرے ہوئے شب و روز کی تلخیوں کو انہوں نے اس طرح مزاح کی چاشنی میں لپیٹا کہ اس کا ذائقہ مزید کے مطالبے پر اکساتاہے۔ اس کتاب کو بار بار پڑھا گیا۔ اس کے اقتباسات بھی لوگوں نے زبانی یاد کر لیے۔ بہت سنجیدہ اور برد باد مشتاق احمد یوسفی نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے ساتھیوں خصوصاً باس اینڈرسن کا جو خاکہ کھینچا ہے ان میں ایک باکمال انسان دوست یوسفی کا کٹھن سفر تنگ پگڈنڈی سے ہموار شاہرا پر تحریر کی رو میں قاری کو رواں رکھتا ہے۔
اس کتاب میں ان کی پیشہ ورانہ زندگی کے باب میں ایک اور کردار اسکاٹش بینکر ، مسٹر اینڈرسن کا شروع سے آخر تک ساتھ چلتا ہے اور اتنا دلچسپ اور بھرپور ہے کہ اس کی رخصت کے ساتھ کتاب کا اختتام بھی ہو جاتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی کی خاکہ نگاری کی مہارت مسٹر اینڈسن کی کردار نگاری میں عروج پر نظر آتی ہے جس میں مزاح کے ساتھ انسان دوستی کا عنصر پورے توازن سے موجود ہے۔ اس توازن اور شائستگی کو برقرار رکھنے کے لیے زبان اور بیان پر مہارت کے ساتھ طبعی نفاست اور ہمدرد طبیعت ضروری ہے۔
ایسے خاکوں میں حسِ مزاح اور اس کے اظہار کی نزاکت کا پتہ چلتا ہے۔ یہ مشکل کام انہوں نے اس آسانی سے کیا ہے جیسے ماہر انگلیاں چاک پر مٹی کو جو چاہے شکل دے دیں۔ آنکھیں ہلکی نیلی جویقینا کبھی روشن ہوں گی، ناک ستواں ترشی ترشائی، نچلا ہونٹ تحکمانہ انداز سے زرا آگے کو نکلا ہوا، سگریٹ کے دھوئیں سے ارغوانی۔
بائیں ابرو بے ایمان دوکاندار کی ترازو کی طرح مستقلاً اوپر چڑھی ہوئی گرجدار آواز، جسم مائل بہ فربہی، رنگ وہی جو انگریزوں کا ہوتا ہے۔ آپ نے شاید دیکھا ہو گا کہ چینیوںکا چہرہ عمر سے بے نیاز ہوتا ہے اور انگریزوں کا جذبات سے عاری۔ بلکہ بعض اوقات تو یہ چہرے سے بھی عاری ہوتا ہے۔ لیکن یہ بالکل مختلف چہرہ تھا۔ ایک عجیب تمکنت اور دبدبہ تھا اس چہرے پر، کمرے میں فرنیچر برائے نام، نا آرائش کی کوئی چیز، سارا کمرہ اس کے چہرے سے ہی بھرا بھرا نظر آتا تھا۔ یہ مقابل
ہو تو اور کوئی چیز تو کیا اس کا اپنا جسم بھی نظر نہیں آتا۔ ‘‘ مشتاق احمد یوسفی نے سنجیدہ مزاح کی روایت کو عروج پر پہنچایا ہے۔ ان کی تحریر لبوں پر مسکراہٹ ہی نہیں لاتی بلکہ ذہن و دل پر بھی نقش چھوڑ دیتی ہے۔ دوسروں پر ہنسنا ہو تو اپنے آپ پر ہنسو۔ اگر دوسرے کا ہونا بہت ضروری ہے تو ہم ذات تخلیق کر لو اور اسے نشانہ بنائو۔ جبر و قدر میں مبتلا انسان سے ہم دردی کی انتہا ’آبِ گم‘ میں اتنی واضح ہے کہ مشتاق احمد یوسفی کی انسان دوستی کا اظہار رشک میں مبتلا کر دیتا ہے۔
اس کتاب کی تحریر میں آنے تک عمر کا وہ مرحلہ بھی شروع ہو گیا تھا جہاں ساتھ ہنسنے والے اپنی خوشگوار یادوں کے ساتھ جدائی کے داغ بھی دینے لگے۔ اس کتاب میں عمر اور تجربات کی سنجیدگی ، فکر کی گہرائی اور موضوعات کے تقاضوں نے مشتاق احمد یوسفی کے سنجیدہ مزاح کا اصل رنگ اس طرح اجاگر کیا ہے کہ اب قاری اس مقام پر مسکراتا ہے جہاں عام طور سے رونا آجائے۔ ایسا مزاح پیدا کرنا ، کرب کی اس انتہا تک جانا کہ آنسئوں کو مسکراہٹ میں تبدیل کر دے آسان کام نہیں۔ ’آبِ گم ‘ سے ایک عبارت دیکھئے ؛
’’لیڈر خود غرض، ملا مصلحت بیں، عوام خوفزاہ اور راضی برضائے حاکم، دانشور خوشامدی اور ادارے کھوکھلے ہو جائیں۔ ( رہے ہم جیسے لوگ جو تجارت سے واسبتہ ہیں تو کامل اس فرقہ تجار سے نکلا نہ کوئی۔ )تو جمہوریت آہستہ آہستہ آمریت کو راہ دیتی چلی جاتی ہے۔ پھر کوئی طالع آزما آمر ملک کو غصب ناک نگاہوں سے دیکھنے لگتا ہے۔ ڈکٹیٹر خو د نہیں آتا لایا اور بلایا جاتا ہے اور جب آجاتا ہے تو قیامت اس کے ہم رکاب آتی ہے۔
مشتاق احمد یوسفی اس اعلیٰ تعلیم یافتہ نسل کے چند آخری نمائندوں میں سے تھے جس نے حصولِ پاکستان کی جدوجہد اور آزادی کے بعد کے حالات سے گزر کر اس نئے وطن میں ادارہ سازی کی۔ بینکنگ کے شعبہ میں وہ اعلیٰ ترین اعلیٰ ترین انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔ ملک اور بیرون ملک بینکوں کی شاخیں قائم ہوئیں تو ان میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یہ وہ دور تھا جب وطنِ عزیز کی ہر صبح کسی نئی پیش رفت کے ساتھ طلوع ہوتی تھی۔ انہوں نے مشرقی پاکستان میں بینکوں کی شاخیں کھولنے کا ذکر بھی اپنے مخصوص انداز میں کیا ہے۔
پھر اسی مشرقی پاکستان کو جدا ہو کر بنگلہ دیش بنتے بھی دیکھا۔ سیاستدانوں اور آمروں کی غاصبانہ فطرت کو برداشت کیا اور لکھا۔ امیروںکو مزید امیر اور غریبوں کو مزید غریب ہوتے دیکھا۔ سماجی نا انصافی اور اہلِ علم کے بے وقار ہونے کا تماشہ بھی نظر سے گزرا۔ ان موضوعات اور اس ادبی بد دیانتی کو بھی موضوع بنایا جو ادب اور ادیبوں کے وقار کے منافی ہے۔ شاعر و ادیب کی تاج پوشی کی رسم ہو یا غیر شاعری کی داد اور شاعرات سازی ایسی سرگرمیوں کو بھی بڑھاوا دینے سے روکنے کے لئے اپنا قلم استعمال کیا۔
ان کا ایک امتیاز ساری دنیا میں لکھے جانے والے موثر ادب کا مطالعہ اور اپنے وطن کے لکھنے والوں سے باخبر رہنا بھی تھا۔ وہ کبھی شہرت کے پیچھے نہیں گئے نتیجتاً شہرت خود ان کے تعاقب میں رہی۔ ان سے ملنے کے مشتاق، ملاقات کی صورتیں ڈھونڈتے۔ وہ بھی سب سے ملتے مگر کم ً،کم گفتن کم خوردن وکم خفتن(کم بولو،کم کھاؤ اور کم سوؤ) اپنا شعار بنایا تھا اور اسی باوقار انداز میں 20جون 2018 کو ابدی نیند سو گئے۔