اسلام آباد ( نیوزایجنسیاں)سابق وزیر اعظم شاہدخاقان عباسی نے کہا ہے کہ حکومت صدارتی نظام لانا چاہتی ہے ، قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک صدارتی نظام میں دو لخت ہوا تھا، پارلیمنٹ میں یہ ہمت ہونی چاہیے کہ ایک قرار داد پاس کر ہمیشہ کے لیے صدارتی نظام کو دفن کردیا جائے ، وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امو ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ صدارتی نظام کی باتیں محض شوشہ ہیں، اس کی تردید کرتا ہوں ، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ وزیراعظم کے خلاف بات کرنے سے ڈر لگتا ہے ورنہ وہ جیل میں بھیج دیا جائوں گا ، انتقام کا سلسلہ کہیں رکنا چاہیے ، وفاقی وزیر غلام سرور خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کہتے ہیں نیا پاکستان نہیں پرانا پاکستان چاہیے ،کیا پرانے پاکستان والی کرپشن دوبارہ ملنی چاہیے، وزیر مملکت اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف بجٹ کے طعنے دینے والی پیپلز پارٹی اور(ن) لیگ 11مرتبہ آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ بنیں ، مسلم لیگ (ن) کی رکن قومی اسمبلی سیدہ نوشین افتخار نے کہا کہ آٹا، چینی اور دوائی عوام کو کیسے ملے گی لوگ یہی پوچھ رہے ہیں، حناربانی کھر نے کہاکہ عمران خان کہتے ہیں مہنگائی ہوتی ہے تو حکمران چور ہوتا ہے ،اب عمران خان وزیر اعظم ہیں اور مہنگائی ہے تو کون چور ہے ،کسانوں کا پیٹ کاٹا گنے کی قیمت کم دی گئی ،کیا شہریوں کو سستی چینی مل گئی ہے ،ہم ان کو چور نہیں کہیں گے کیونکہ یہ ہماری تربیت نہیں۔تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم شاہدخاقان عباسی نے کہا کہ اس ایوان میں اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے دوران حکومتی بینچز سے حملہ کیا گیا جو پورے ملک نے دیکھا، گالی گلوچ ہوئی، کتابیں ماری گئیں اور ہم میں سے کوئی بھی شخص اس پر ایک افسوس کا لفظ بھی نہیں کہہ سکا۔ وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امو ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے صدارتی نظام اور اٹھارہویں ترمیم کے شوشوں کی حکومت کی طرف سے تردید کرتا ہوں، کوئی آل پارٹیز کانفرنس قانون سازی نہیں کر سکتی، بدھ کو قومی اسمبلی میں بجٹ پر بات کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرتے ہیں تو پارلیمانی کمیٹیوں کا بائیکاٹ کرنے کی بجائے ایوان میں آئیں، حکومت پہلے بھی سنجیدہ تھی اور آج بھی ہے، وزیراعظم عمران خان قانون کی بالادستی کے لئے اداروں کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں، بجٹ اکثریت کے ساتھ منظور کرائیں گے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ وزیر اعظم نے کہا اپوزیشن فوج کو اکساتی ہے ، بتائیں کس نے کس افسر سے رابطہ کیا ، کرپشن کا چورن اب مزید نہیں بکنے والا،مہربانی کریں آپ قومی ہم آہنگی کی بات کریں ،دھرنا دے کر آپکی حکومت نہیں گرائیں گے،انتقام کا سلسلہ کہیں رکنا چاہیے ،حکومت کے بجٹ اور تقریروں میں تضاد ہے،کالے کو سفید اور سفید کو کالا نہیں کر سکتے،کوئی قوم معاشی خود مختاری کے بغیر آزادی حاصل نہیں کر سکتی،معاشی عدم استحکام تب پیدا ہوتا ہے جب مقبول لیڈر کو تسلیم نہیں کیا جاتا،حکومت کی ترجیحات غلط ہیں ،ملکی خزانے کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے ،کوئی ایسا بجٹ جس سے بیروزگاری اور بھوک ختم نہ ہو وہ ناکام بجٹ ہی کہلائیگا،اگر اڈے نہیں دینے تو کیا رائے نہیں لینی ،کیا اکیلے ملک چلانا ہے ،افغانستان کی موجودہ صورتحال پر ان کیمرہ اجلاس بلایا جائے اور سیکورٹی ادارے اس پر بریفنگ دیں۔ وفاقی وزیر غلام سرور خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کہتے ہیں نیا پاکستان نہیں پرانا پاکستان چاہیے ،کیا پرانے پاکستان والی کرپشن دوبارہ ملنی چاہیے،کورونا کے باوجود ہم نے سر کاری ملازمین کی دس فیصد تنخواہیں بڑھائیں ،بہت جلد ملک میں معاشی استحکام آئے گا ،مسلم لیگ (ن )کو تین بار وفاق اور چھ بار پنجاب میں حکومت ملی، ماضی میں سبزیاں بھی در آم کی گئیں،(ن) لیگ نے کبھی بھی کسان دوست بجٹ نہیں دیا، زراعت کے شعبے میں مزید سبسڈیز کی ضرورت ہے،انشااللہ رنگ روڈ بنے گا اور ہمارے دور میں مکمل ہو گا۔ وزیر مملکت اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف بجٹ کے طعنے دینے والی پیپلز پارٹی اور(ن) لیگ 11مرتبہ آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ بنیں ، 1999تا 2017 تک تین مرتبہ ملک بینک ڈیفالٹ کی قریب پہنچا اسوقت بھی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں تھیں ، مہنگے ریٹس پر مقامی قرض لیکر زرادری اور نواز شریف نے سوئٹرز لینڈ اور لندن میں محلات بنائے ،ماضی کی ان حکومتوں کی عیاشیوں ، منی لانڈرنگ ،کرپشن ،جعلی اکاؤنٹس اور ٹی ٹیز کی وجہ سے حکومت کو 3ہزار ارب سود کی مد میں ادا کرنا پڑ رہے ہیں ،14سالہ حکومت کرنے والے مراد علی شاہ کے مقابلے میں تین سالہ حکومت کرنے والے عثمان بزدار کارکردگی جیت چکے ہیں ، سندھ نے 155ارب کے ترقیاتی پروگرام میں سے 100ارب خرچ ، 317ارب ٹیکس وصولوں کے ہدف میں 243ارب اکٹھے کیے ، پنجاب کا 337ترقیاتی بجٹ تھا 375ارب خرچ ہوئے، ٹیکس وصولیوںکا ہدف 317ارب تھا جبکہ وصولیاں 358ارب ہیں، حکومت نے آئی ایم ایف کے جی ڈی پی ، ٹیکس وصولیوں، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا ہدف حاصل کیا ہے ۔وہ بدھ کو قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کر رہے تھے ۔