ایمان صغیر
دنیا بھر میں پھیلی عالمی وبا کورونا وائرس کی مختلف اقسام سامنے آئی ہیں۔ بر طانیہ میں سامنے آنے والی قسم الفا کی منتقلی کی صلاحیت کافی حدتک زیادہ تھی۔ حال ہی میں بھارت میں ڈیلٹا نامی دوسری قسم سامنے آئی ،جس کی منتقلی کی صلا حیت الفا سے بھی کہیں زیادہ ہے ۔ اس وبائی بیماری کی پہلی قسم ہی کا فی تباہ کن ثابت ہوئی۔ امپریل کا لج لندن کے ماہر پروفیسر وینڈی بار کا کہنا ہے کہ جب کوئی بھی وائرس انسانوں میں منتقل ہوتا ہے تو ضروری نہیں کہ وہ فوری ہی بہترین انداز میں کام کریں۔ پہلے وہ جسم میں آباد ہو تا ہےاور پھر یہاں بہترین وقت گزارتا ہے۔ایبولا سے لے کر عام فلو تک متعدی وبائی امراض میں ایسا ہی ہوا ہے ۔
پہلے ان کی منتقلی کی شر ح بڑھتی ہے اور پھر بہت تیزی سے پھیلتے اور بدلتے جاتے ہیں ۔وائرس کی طاقت کا موازنہ کرنے کا بہترین طریقہ اس کے آر او نمبر یعنی پھیلائو کی شر ح کو دیکھنا ہے ۔ اگر کوئی بھی انفیکشن سے نہیں بچ سکتا اور کسی نے وائرس سے بچنے کی اضافی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کیں تو آراو نمبر ان لوگوں کی اوسط تعداد ہے۔ جنہیں ایک متاثرہ شخص سے وائرس لگا ہو۔
امپیریل کالج لندن میں بیماری کے ماہر ماڈل کے مطابق جب ووہان میں وبائی بیماری شروع ہوئی تھی تب کووڈ کی یہ صلاحیت 2.5 کے آس پاس تھی اور ڈیلٹا اقسام کے لیے یہ 8.0 تک جا سکتی ہے۔آکسفورڈ یونیورسٹی میں وائرل ارتقا کا مطالعہ کرنے والے ڈاکٹر ایریس کتزوراکس کا کہنا ہے کہ اس وائرس نے ہمیں بہت حیرت میں ڈالا ہے۔ اس کی دو اقسام الفا اور ڈیلٹاجو ایک دوسری سے 50 فی صدزیادہ منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے جو انتہائی غیر معمولی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ وائرس کس حد تک بڑھ سکتا ہے، اس کی پیشگوئی کرنا اتنا آسان نہیں ہے لیکن ان کا اندازہ ہے کہ اگلے دو سالوں میں یہ باآسانی بہت بڑی چھلانگ لگا سکتا ہے۔ یعنی اس کی کچھ اور مختلف خطرناک قسمیں بھی دیکھی جا سکتی ہیں،تاہم کچھ وائرس ایسے بھی ہیں جن کے انفیکشن کی شرح کووڈ وائرس سے کہیں زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر خسرہ یا چیچک کا وائرس اس معاملے میں ’’ریکارڈ ہولڈر‘‘ ہے، جس کے انفیکشن کی شرح بڑھ کر سنگین صورتحال اختیار کر سکتی ہے۔پروفیسر بارکلے کا کہنا ہے خسرہ میں پھیلنے کی شرح 14 سے 30 کے درمیان ہے۔
لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ کورونا وائرس میں مزید اضافہ (خطرناک ہونے) کی گنجائش موجود ہے لیکن اس کے بارے میں واضح طور پر کچھ کہنا درست نہیں ہو گا۔وائرس اپنے پھیلاؤ کے لیے بہت سے طریقوں کا استعمال کر سکتا ہے۔ جیسا کہ یہ ہمارے جسم کے خلیوں تک رسائی حاصل کرنے کے طریقوں کو بہتر بنا کرہوا میں لمبے وقت تک زندہ رہ کروائرل بوجھ میں اضافہ کر سکتا ہے، تاکہ مریض سانس لیتے یا کھانستے ہوئے زیادہ وائرس باہر پھینکیں جب کسی دوسرے فرد کو انفیکشن لگتاہے تو یہ اپنی شکل تبدیل کر لیتالیکن کورونا وائرس میں ہم نے جس طرح کی تبدیلی 'الفا اور 'ڈیلٹامیں دیکھی ہے، اس کو دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ ہمیں اومیگا یا دیگر مختلف حالتوں کا سامنا پڑ سکتا ہے۔ڈاکٹر ایرس کتز وراکیس کے مطابق کورونا وائرس کی بھی ایک حد ہے ،ایسا نہیں ہے کہ یہ انتہائی الٹراوائرس ہوگا ،جس میں تغیر پزیر ہونے کے تمام برے امتزاج شامل ہوں گے ،جس پر قابو نہ پایا جاسکے ۔
اسی کے ساتھ، کچھ ماہرین کی رائے ہے کہ تاریخ میں سب سے تیز رفتار ویکسینیشن مہم اس وائرس کے لیے ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے۔ڈاکٹر کتزوراکیس کے مطابق یہ ممکن ہے کہ وائرس میں وہ تبدیلیاں جو ویکسین سے بچنے کے عمل کو بہتر بناتی ہیں، بالآخر اس کی منتقلی کی صلاحیت کو بالکل ہی کم کر دے۔ڈیلٹا کی مختلف حالتوں (جن میں E484K بھی شامل ہے) ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ نہ صرف تیزی سے پھیلتا ہے، بلکہ یہ قوتِ مدافعت کو بھی دھوکہ دے سکتا ہے۔
ایسی صورتحال میں ابھی یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کووڈ 19سے نمٹنے کے لیے بہترین حکمت عملی کیا ہے۔ مختلف وائرس مختلف طریقے سے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ جیسے چیچک ،خسرہ وائرس انتہائی خطرناک ہے لیکن یہ زندگی بھر کے لیے قوتِ مدافعت چھوڑ جاتا ہے۔ لہٰذا اسے ہر بار ایک نیا ہدف ڈھونڈنا پڑتا ہے۔اگرچہ انفلوئنزا وائرس کے پھیلاؤ کی شرح بہت کم ہے، یہ شاذ و نادر ہی ایک سے بھی اوپر جاتی ہے۔پروفیسر بارکلے کا کہنا ہےہم ایک انتہائی دلچسپ، درمیانے اور کسی حد تک غیر متوقع مرحلے میں ہیں، جس میں یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے کہ آنے والے برسوں میں یہ وائرس کیسا ہو گا۔کچھ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ارتقا کے لیے وائرس پر دباؤ کم ہے۔
وائرس پہلے سے متاثرہ شخص کو مارنے سے پہلے دوسرے شخص کو بھی متاثر کر دیتا ہے اور وہ لوگ جو سب سے زیادہ اسے پھیلاتے ہیں (کم عمر افراد) وہ خود زیادہ بیمار نہیں ہوتے۔لیکن اس غیر متوقع مرحلے میں ویکسینیشن کی تیز رفتار مہمات اُمید کی کرن ہیں۔سائنس دانوں کو اُمید ہے کہ جن ممالک میں ویکسینیشن مہم تیزی سے چلائی جا رہی ہے۔ وہاں کورونا وائرس کی اگلی شکل اتنی زیادہ پریشانی کا باعث نہیں ہو گی۔لیکن یہ مختلف حالتیں زیادہ متعدی ہونے والی ہیں اور ان کا خطرناک رجحان باقی دنیا کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہے۔