• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کا سیاسی نقشہ عجب جمود کا منظر پیش کر رہا ہے۔ لگ رہا سب سیاسی اور غیرسیاسی کھلاڑی اپنے اپنے بیانیے کا شکار ہو چکے ہیں۔ کوئی اپنے محور سے ہٹنے کو تیار نہیں۔ کسی کو صورت حال میں تبدیلی گوارا نہیں۔ آج یہ جائزہ لینا مقصود ہے کہ یہ چہار طرفی جمود کیسے تخلیق ہوا اور اس سے نکلنے کی صورت کیا ہے۔ دنیا کی تاریخ ایسے مشکل مقامات پر کیا حل تجویز کرتی ہے اور ہماری اپنی تاریخ کس راستے کی طرف نشاندہی کرتی ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ سیاست کی اس بساط کے سب کھلاڑی اپنے کہے کی گرفت میں ہیں۔ کوئی اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کر رہا۔ کسی کو اپنے بیانیے سے ’’یوٹرن‘‘ مقصود نہیں۔

غور سے دیکھیں تو موجودہ حکومت ’’کرپشن کرپشن‘‘ کی رٹ میں بری طرح پھنس چکی ہے۔ ان کی اپنی صفوں میں چاہے کرپشن کی جتنی مرضی کہانیاں ہوں یہ مخالفین پر کرپشن کے الزامات لگانے سے، انہیں چور، ڈاکو، لٹیرے کہنے سے باز نہیں آ سکتی۔ اس لئے کہ انہوں نے ووٹ ہی اس بات کے لئے ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اگر حاکمِ اعلیٰ کرپٹ نہ ہو تو ملک ترقی کرتا ہے، ادارے مضبوط ہوتے ہیں، کرپشن کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اب بقول خان صاحب کے مصاحبین کے خان صاحب کرپٹ نہیں ہیں تو جانے کیوں ملک ترقی کی بجائے تنزلی کی جانب بڑھ رہا ہے۔

کرپشن کی کہانیوں میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر ادارہ سرنگوں ہوتا جا رہا ہے۔ اس حقیقت کو حکومت تسلیم کرنے سے اس لئے قاصر ہے انہیں کرپشن کا چورن ہی بیچنا ہے جس وقت انہوں نے اس چورن کی فروخت بند کردی انکی اپنی ہٹی بند ہو جائے گی۔ اس لئے حالات چاہے کچھ بھی ہوں حکومت وقت جب تک قائم ہے ان کی زبان پر کرپشن اور لوٹ مار کے احتساب کا نعرہ ہی رہے گا۔ عمران خان اگر چاہیں بھی تو اس نعرے سے نہیں نکل سکتے۔ ملک کے لئے سوائے الزامات گھڑنے کے کچھ نہیں کر سکتے۔

مسلم لیگ ن ووٹ کو عزت دینے کے حصار میں قید ہے۔ پورے ملک کے لوگوں نے اس نعرے پر لبیک کہا۔ جماعت چاہے کوئی بھی ہو جمہوری سوچ کے سیاسی کارکن اب ووٹ کو عزت دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ اب ہر اپوزیشن لیڈر کی ایک ایک حرکت کو اس نظر سے جانچا جا رہا ہے۔ کسی بیان میں اگر ووٹ کی عزت کے بیانیے سے ذرا سا بھی انحراف ہوتا ہے تو ووٹر اس شخصیت کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہیں۔ عوام میں جمہوری سوچ پیدا کرنا ایک کار دگر ہے مگر اس جمہوری سوچ کو قائم رکھنا اور خود اس میزان پر پورا اترنا اس سے بھی مشکل کام ہے۔ اب مسلم لیگ ن کا ووٹر ووٹ کو عزت دینے کے درپے ہے اور اس کے لیڈران اگر چاہیں بھی تو اس نظریے سے انحراف نہیں کر سکتے۔ کسی ڈیل کی طرف نہیں بڑھ سکتے۔

پیپلز پارٹی سندھ حکومت کے گرداب میں ہے۔ ان کی ساری سیاست، ساری جدوجہد سندھ حکومت تک محدود ہے۔ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم چھوڑ سکتی ہے، مخلص ساتھیوں کو دغا دے سکتی ہے، اپنے نظریے سے ہٹ سکتی ہے مگر سندھ کی حکومت نہیں چھوڑ سکتی۔ اس لئے کہ انہیں علم ہے کہ اب ان کے ہاتھ میں اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ پنجاب میں وہ اپنی منزلت کھو چکے ہیں۔ یہ پارٹی اب قومی پارٹی نہیں رہی۔ اب ان کی سر توڑ کوشش ہے کہ اس کو صوبائی پارٹی تو رہنے دیا جائے کیونکہ خدشہ یہ ہے کہ اگر اس پارٹی سے صوبائی پارٹی کا ٹائٹل بھی چھن گیا تو یہ سندھ کی دیہی علاقے کی پارٹی رہ جائے گی۔ اگلے الیکشن میں خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گی۔ اب جو ہاتھ میں ہے وہی بچت ہے وہی سیاست ہے۔ اس لئے پیپلز پارٹی سندھ حکومت سے کنارہ کش نہیں ہو سکتی چاہے اس کے لئے بھٹو کے نظریے کی موت ہو جائے۔ چاہے اس کے لئے میثاق جمہوریت کا قتل ہو جائے۔

مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر صوبائی جماعتیں بڑی پارٹیوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ یہ وہ جماعتیں ہیں جو قوت رکھنے کے باوجود کوئی قومی سطح کی تبدیلی لانے سے قاصر ہیں۔ ان کی پوزیشن تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھنے تک محدود ہے۔ ان کی توقعات ملک کی بڑی پارٹیوں سے ہے انکے بیانیے پر ان کی سیاست کا انحصار ہے۔ یہ سب منتظر ہیں ایسی صورت حال کی جہاں ان کی اپنی اساس بھی قائم رہے، ملکی سیاست کے دھارے کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوٹے اور جمہوریت کے نام پر بٹا بھی نہ لگے۔ ملک کی غیرجمہوری قوتیں اس حکومت کے ساتھ تعاون کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ انہیں ایک ٹوکری میں سب انڈے ڈالنے کی سزا مل رہی ہے۔ چاہے اب وہ ملکی صورت حال پر تاسف سے ہاتھ ملیں چاہے اس ابتری پر دکھ کا اظہار کریں اب وہ اس حکومت کی پشت پناہی میں اس حد تک آگے جا چکی ہیں کہ اس مقام سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔

جب سب فریق اپنے اپنے بیانیے کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہوں۔ کوئی بھی جنبش کرنے پر راضی نہ ہو تو تاریخ عالم ہمیں بتاتی ہے کہ ایسے حالات میں صرف بہادری کی کوئی مثال ہی صورت حال کا نقشہ بدل سکتی ہے۔ اب واحد حل یہ ہے کوئی فریق ایسی دلیری سے کام لے جو اس صورت حال کو پلٹ کر رکھ دے۔ جمود کو جدوجہد میں بدل دے۔ ابھی تک کی صورت حال میں دلیری کا یہ سہرا صرف نواز شریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمٰن کے سر پر سجتا ہے۔ اس لئے کہ وہ جس نظریے پر چل رہے ہیں اس کے لئے شجاعت بھی درکار ہے اور سرمدی ولولہ بھی لیکن دلیری کی یہ داستان صرف ان تین لوگوں تک موقوف نہیں۔

اس داستان شجاعت میں جسٹس وقار سیٹھ کے دلیرانہ فیصلے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی شجاعت، حاصل بزنجو کی ہمت، پرویز رشید کی جمہوری سوچ، رضا ربانی کے دلائل، مشاہد اللہ خان کا دلیرانہ جذبہ اور سینیٹر لالا عثمان کاکڑ کے جنازے میں شریک لوگوں کی انکھوں سے گرتے اشک بھی شامل ہیں۔ خوف اور جبر کے ماحول میں شجیع لوگوں کی بہادری ہی قوموں کو گرداب سے نکالتی ہے۔ انہیں جمہوریت کی راہ پر ڈالتی ہے۔ سیاسی جمود کو سیاسی جدوجہد میں ڈھالتی ہے۔

تازہ ترین