میں اپنے دوست فقیر ایاز کاشکرگزار ہو ں جنہوں نے میری توجہ اندرے گائیڈ (Andre Gide) کے مشہور جملے کی طرف دلائی : ’’جو بات بھی کہنی ضروری تھی، وہ پہلے ہی کہی جاچکی ہے۔ لیکن چونکہ کوئی بھی نہیں سن رہا تھا، اس لئے ہر بات دوبارہ کہنے کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔ میں نے اپنے آئین کے بارے میں لکھا بھی ہے اور لیکچر بھی دیے ہیں کہ اس میں کتنی غلطیاں ہیں اور انہیں تبدیل کرنے کی کتنی ضرورت ہے۔ چنانچہ میں ایک مرتبہ پھر ایسا کرتا ہوں کیوں کہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔
ﷲ تعالیٰ نے ہمیں تاکید کی ہے ، ’’اپنے حکمران اپنے لوگوں میں سے چنو‘‘(مطلب ہے کہ اُن کا تعلق امتِ مسملہ سے ہو)’’جو تم میں سے بہترین ہوں۔‘‘بہت بصیر ت افروز فرمان ہے لیکن مغربی مفادات کی وجہ سے اس پر شاید ہی کبھی عمل کیا گیا ہو۔ ﷲ تعالیٰ کی اطاعت کی بجائے ہم نے برطانوی نوآبادیاتی دور کے سیاسی نظام کو اپنا لیا۔ ممکن ہے کہ یہ نظام برطانیہ کے لئے اچھا ہو(اگرچہ ٹونی بلیئر اور بورس جانسن اور گاہے گاہے اس قبیل کے لیڈروں کے انتخاب کے بعد مجھے اس کی اچھائی پر شک ہے)۔
جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تووہاں بھی انتخابی جمہوریت ہے۔ خدا آپ کابھلا کرے ، اُن کے نظام نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ جیسا لیڈر چن کر وائٹ ہائوس بھیج دیا تھا۔ اب ردعمل کے طور پر اُنہوں نے ایک ازکاررفتہ شخص منتخب کرلیا ہے جنہیں سچ پوچھیں تو یہ بھی نہیں پتہ چلتا کہ وہ کہاں سے آیا جارہے ہیں۔ یہ نہ صرف امریکہ بلکہ باقی دنیا کے لئے اچھا شگون نہیں۔ درحقیقت پارلیمانی اور صدارتی نظام جہاں جہاں بھی رائج ہیں ، وہ ممالک گھٹنے ٹیکتے جارہے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ ہم میں سے کوئی بھی اس نظام کا حتمی انجام دیکھنے کے لئے زندہ رہے گا۔ تاہم اس وقت ہمیں پاکستان میں اور تیسری دنیا کے ممالک میں اپنا نظام جمہوری اصولوں کے مطابق ڈھالنا ہے۔
اپنے میں سے بہترین کا انتخا ب عملی ہدایت ہے۔ لیکن آپ کیسے فیصلہ کریں گے کہ آپ کے درمیان کون سب سے اچھا ہے ؟اس کے لئے آپ کو اجماع چاہئے۔ ہمیں طریق کار کودیکھنا ہے۔ ہمارے آئین کے اندر امیدواروں کی اہلیت اور نااہلیت کا فیصلہ کرنے کے لئے آرٹیکل موجود ہیں مگر ان پردرست طریقے سے عمل نہیں کیا جاتا۔ ان کو وقت سے پہلے استعمال میں لانا جانا چاہئے یعنی امیدوار کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دینے سے پہلے۔ ہر امید وار کا ان اصولوں پر پورا اترنا ضروری ہو۔اس بات کا فیصلہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ اس اجازت دینے والی کمیٹی کا حصہ کون ہوگا؟ ہر اس شخص کو جس کا ماضی داغدار ہو یا جس پر سنگین نوعیت کے الزامات ہوں، کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ملنی چاہئے۔یہ بات ایرانی نظام کی طرح تلخ لگتی ہے مگر درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ ایران میں علما کی ایک کونسل ہے جواس بات کا فیصلہ کرتی ہے۔ یہاں بھی مختلف فرقوں کی نمائندگی کرتے ہوئے علما کی کمیٹی تشکیل دی جا سکتی ہے جس میں توازن برقرار رکھنے کے لئے دوسرے شعبوں کے ماہرین بھی شامل ہوں۔اور اگر کوئی شخص اس سے بہتر تجویز پیش کر سکے تو مجھے خوشی ہوگی۔چاہے ہمارا نظام پارلیمانی ہو یا صدارتی اس اصول پر عمل ہونا چاہئے۔
ہمیں ایک امیدوار کوانتخابات میں ہارنے کے خوف کی وجہ سے مختلف حلقوں سے بیک وقت الیکشن لڑنے کے عمل کو روکنا چاہئے۔ یہ غیر یقینی کی فضا پیدا کرتا ہے اور غیر منصفانہ ہے۔ ہمارا نظام تباہی کے دہانے پر ہے۔ اس کا ثبوت پارلیمنٹ میں چند ہفتے پہلے ہونے والی ہنگامہ آرائی ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں بھی صوبائی بجٹ پیش کرنے سے پہلے ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ دونوں نہایت دلخراش مناظر تھے۔ میں ٹی وی پر یہ سب دیکھ رہا تھا اور پاس سے گزرتی ہوئی بیٹی کو بتایا کہ آئو اور جمہوریت کو دیکھ لو۔وہاںجو زبان استعمال کی گئی اس کی کوئی باعزت آدمی کسی بھی جگہ توقع نہیں کر سکتا۔اندازہ ہوا کہ ہم نے جمہوریت کو کس حد تک پستی میں گرا دیا ہے۔
یہ آخری چیز ہوگی جسے ہم کبھی دہرانے کی خواہش رکھیں۔عمران خان کو ایک بہتر ٹیم چاہئے لیکن وہ بیچارے کیا کرسکتے ہیں جب اُنہیں انہی اراکین پارلیمنٹ سے اپنی ٹیم چننی ہوجو نااہل ترین افراد ہوں ؟ اُن کی ٹیم کے ممبران اُن کی سب سے بڑی کمزوری ہیں۔ وہ کسی پر بھی جھپٹ پڑیں گے۔ اسے توڑ مروڑ کر حکومت کے خلاف استعمال کریں گے۔
عمران خان ایف اے ٹی ایف کے خلاف جنگ جیت رہے ہیں ، لیکن مجھے بطور ایک آزاد اور خود مختار ملک کا شہری ہونے کے ناتے پوچھنا ہے کہ یہ کون ہوتے ہیں ہمیں بتانے والے کہ ہم کون ساٹیسٹ پاس کریں کہ وہ ہمیں انسان سمجھنے لگیں اور ہمارے ساتھ کاروبار کریں۔میرا خیال ہے کہ ہمیں بھی اُن ممالک کے لئے ایسا ہی کوئی ٹیسٹ بنانا چاہئے جواسلاموفوبیااور نسل پرستی میں مبتلا ہیں اور جو دوسروں پر جنگیں مسلط کرتے ہیں اور ایک بم سے چشمِ زدن میں ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں ، لیکن پارسائی کے زعم میں ڈوبے ہمیں لیکچر دے رہے ہیں کہ ہمیں منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی امداد کا راستہ روکنا ہے۔ یہ منی لانڈرنگ کس کی ایجاد ہے ؟ وہی اس کے موجد ہیں۔ اگر اُن کے بینک، مالیاتی ادارے اور ٹیکس چوری کے محفوظ مقامات نہ ہوں تو منی لانڈرنگ ناممکن ہوجائے۔ اگر وہ اپنے ممالک میں کالا دھن نہ آنے دیں تو وہ کدھر جائے گا؟ وہ خود ہمارے مجرموں کو پناہ دیتے ہیں۔ وہ اُنہیں ہمارے حوالے نہیں کرتے۔او ر پھر وہ توقع کرتے ہیں کہ ہم اُن کی عزت ،ا وراُن کی باتوں پریقین کریں۔ وہ بدترین مجرم ہیں کیوںکہ وہ اپنی مجرمانہ ذہنیت مختلف ’’جمہوری لوازمات‘‘ کے پردے میں چھپاتے ہیں ، جیسا کہ آزادی اظہار، اور، نواز شریف کے کیس میں ہے، سزا سے بچ نکلنے کی آزادی۔ ذرا مجرموں کی تعداد گنیں جنہیں ان ممالک نے پناہ دے رکھی ہے تو آپ کو میری بات سمجھ میں آجائے گی۔