بیرسٹر علی ظفر کی زیرِ صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف کے اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی بل پر اپنی گفتگو کے دوران وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم کے ہنسنے پر ناراض ہو گئے۔
بیرسٹر علی ظفر کی زیرِ صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف کے اجلاس میں وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم بھی خصوصی طور پر شریک ہوئے۔
کمیٹی کے اجلاس میں کرمنل لاء بل 2021ء، انسدادِ ریپ بل 2021ء پیش کیا گیا جبکہ مسلم فیملی لاء بل اور خواتین کے وراثتی حقوق کے بل پر بحث کی گئی۔
اجلاس کے دوران رضا ربانی بل پر اپنی گفتگو کے دوران فروغ نسیم کے ہنسنے پر ناراض ہو گئے اور کہا کہ یہ انتہائی غیر سنجیدہ رویہ ہے، میں مزید اس پر بات نہیں کروں گا۔
فروغ نسیم نے جواب دیا کہ رضا بھائی آپ سے معذرت خواہ ہوں، فاروق نائیک نے ایک مذاق کیا تھا جس پرمیں ہنسا۔
اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں تو سرے سے کچھ بولا ہی نہیں۔
فروغ نسیم نے کہا کہ رضا ربانی صاحب! میں آپ پر نہیں ہنس رہا تھا، ہمارا کسی اور بات پر مذاق ہے۔
رضا ربانی نے جواب دیا کہ میں نے بال دھوپ میں سفید نہیں کیئے، میں اشارے سمجھتا ہوں۔
چیئرمین کمیٹی بیرسٹر علی ظفر نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ قانون سے کہا کہ فروغ نسیم صاحب سنجیدہ ماحول میں گفتگو ہو رہی تھی۔
اجلاس کے دوران کمیٹی میں خصوصی عدالتوں، انتظامی ٹریبونلز کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ایف پی ایس سی کے ذریعے ججز کی بھرتیوں کا تجربہ ناکام رہا، 2014ء میں بھرتی ہونے والوں کا نوٹیفکیشن 2018ء میں جب میں وزیر بنا تب جاری ہوا، ججز کی تعیناتیوں میں تاخیر پر توہینِ عدالت کی کارروائی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ ججز کی تعیناتی کے لے طریقہ کار تبدیل کیا گیا، جو کیس حکومت ہارے اس کا واویلا ہوتا ہے، جو کیس جیت جاتے ہیں وہ میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوتا۔
سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ٹرے میں رکھ کر ہر چیز عدلیہ کو نہیں دینی چاہیئے، ہمیں حکومت پر یقین کرنا چاہیئے، شفافیت لانا حکومت کا کام ہے، ہر چیز عدالتوں میں لے کر جانا اور وہاں سے ٹھپے لگوانا ٹھیک نہیں، جب تک چیف جسٹس کی مشاورت نہ ہو ہر تعیناتی کالعدم ہی ہو گی۔
مصدق ملک نے کہا کہ ججز کی تعیناتی کا سارا عمل سرکار اور عدلیہ کی صوابدید پر آ گیا ہے، فراہمی انصاف میں وزیر کو نہیں وزارت کو مضبوط ہونے کی ضرورت ہے۔
چیئرمین کمیٹی بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار پر نظرِ ثانی ضروری ہے، اس معاملے کو ایجنڈے پر رکھیں گے۔
فاروق ایچ نائیک نے سوال اٹھایا کہ نیب عدالتیں کس کے ماتحت ہیں؟
شبلی فراز نے اجلاس میں کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیشنل بینک کے صدر کی تعیناتی کالعدم قرار دی ہے، کیا وجہ ہے کہ ہم ہر کیس ہار جاتے ہیں؟