(محمد صالح ظافر، خصوصی تجزیہ نگار) وزیراعظم نواز شریف نے مدافعانہ کی بجائے قدرے جارحانہ سیاسی اسلوب اختیار کرلیا ہے تاہم اس کا ہدف صرف وہ عناصر ہیں جو مسلسل بدزبانی کے مرتکب ہورہےہیں جو کسی ثبوت کے بغیر الزام بازی پر کاربند ہیں اور آئے دن ایجی ٹیشن کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔وزیراعظم نواز شریف جمعہ کے روز سکھر کے عظیم ثقافتی اور تاریخی شہر اپنی تعمیر و ترقی کی مہم اور ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لینے کے لئے پہنچے تو تمازت اور گھٹن نکتہ عروج پر تھی اپنے رابطے کے اس نئے سلسلے میں ان کا سندھ میں یہ اولین پڑائو تھا۔ یہ صوبہ پیپلزپارٹی کا قلمرو ہے جس کے ساتھ وزیراعظم نواز شریف اور ان کی حکومت کے مراسم کسی حد تک ناہموار ہیں اس صوبے میں گزشتہ ہفتے ہی تحریک انصاف کی کرپشن کے خلاف وہ مہم انجام پذیر ہوئی ہے جس کا بلند آہنگ اعلان اس پارٹی کے غیر متوازن سربراہ عمران خان نے کیا تھا اور عین وقت پر وہ پسپائی اختیار کرگئے اپنی جگہ انہوں نے شاہ محمود قریشی کو اس مہم میں جھونک دیا تھا جس میں عام شہریوں کی نسبت مخدوم شاہ محمود کے روحانی پیروکاروں نے زیادہ تعداد میں شرکت کی اس پوری مہم میں انہوں نے صوبائی حکومت اور پیپلزپارٹی کی کرپشن کےبارے میں لب کشائی سے مکمل گریز کیا اور وفاقی حکومت کے خلاف محتاط گولہ باری کرتے رہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے یہاں بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کیا جس میں انہوں نے تحریک انصاف کے سربراہ سمیت کسی سیاسی شخصیت کا نام نہیں لیا تاہم سکھر سے رکن قومی اسمبلی اور قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ کو راج دلارے انداز میں محض یاد کیا جس کا پیرایہ بہت دل آویز تھا۔ نواز شریف نے بدترین حالات میں بھی خورشید احمد شاہ کو ہدف تنقید نہیں بنایا جبکہ خورشید شاہ کا نواز شریف کےبارے میں غصہ چوبیس گھنٹے گزرنے سے پہلے فرو ہوجاتا ہے۔ سکھر میں پیپلزپارٹی سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کی مقبولیت یا عدم مقبولیت کے علی الرغم سید خورشید احمد شاہ کے لئے ان کے حلقہ نیابت کے رائے دہندگان کی چاہت برقرار ہے اس کا بنیادی سبب ان کا عوامی مزاج ہے۔ نواز شریف تقریب گاہ میں پہنچے تو وہاں درجہ حرارت پنتالیس ڈگری کے لگ بھگ تھا تاہم پنڈال میں مصنوعی خنکی کا اہتمام تھا جس کی وجہ سے حاضرین بہت بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود گرمی اورتپش سے بڑی حد تک محفوظ رہے۔ وزیراعظم نے سنگ بنیاد کی نقاب کشائی کے بعد اس گزر گاہ میں تصاویر اور مانیٹر کی مدد سے پورے منصوبے کی تفصیلات اخذ کیں جلسہ عام کا ماحول سیاسی تھا جس سے نواز شریف بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے سے مدافعانہ کی بجائے قدرے جارحانہ سیاسی اسلوب اختیار کرلیا ہے تاہم اس کا ہدف صرف وہ عناصر ہیں جو مسلسل بدزبانی کے مرتکب ہورہےہیں جو کسی ثبوت کے بغیر الزام بازی پر کاربند ہیں اور آئے دن ایجی ٹیشن کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کا استدلال ہے کہ سیاسی مخالفت اور سیاسی تحفظات کا اظہار کسی اخلاقی ضابطے اورپابندی سے ماوریٰ نہیں ہونا چاہئے اگر آپ الزامات عائد کرنے پر بہت مجبور ہیں تو بات ثبوت کے ساتھ کریں محض الزامات عائد کرتے چلے جانا اور پھر اس میں زبان کے استعمال میں احتیاط کادامن چھوڑ دینا کیونکر اور کس حد تک برداشت کیا جاسکتا ہے ان کاکہنا ہے کہ حکومت پارلیمان میں یا میڈیا کے ذریعے ہاتھ پر سرسوں جما کربھی دکھادے تو بعض بے صبرے جن کی زبان پر انکار اور انگار کے سوا کچھ آتا ہی نہیں اسے تسلیم نہیں کرینگے ایسے میں کسی فورم کو تو فریقین نے قبول کرنا ہوگا جہاں محض الزام برائے الزام نہیں بلکہ قصور وار کا تعین کرنے کے لئے شواہد اور دلائل پیش کئے جاسکیں۔ وزیراعظم نو از شریف کو اس امر کا یقین ہوگیا ہے کہ فریق ثانی کسی کمیشن کے قیام پر متفق نہیں ہوگا وہ لگاتار شور مچاتا رہے گا اپنی اس کوشش میں وہ حکومت کو نقصان پہنچانے کے لئے کسی بھی انتہا تک جاسکتا ہے اور بدقسمتی سے اسے یہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ اس کے طرز عمل سے حکومت نہیں ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے اپنی ناسمجھی غیر موزوں تربیت اور خاطر خواہ شعور کے فقدان کی وجہ سے وہ حکومت اور مملکت میں حد فاصل قائم کرنے سے بھی معذور ہوجاتا ہے یہی وجہ ہےکہ وز یراعظم نوازشریف کو کھل کر بات کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑا ہے خدا لگتی کہنی چاہے کہ دہشت گرد ،عوام میں خوف و ہراس پھیلا کر تعمیر و ترقی کے پہیئے ہی کو روکتے ہیں اور عوام کی بھلائی کا ر استہ مسدود کرتے ہیں، دھرنائی کیا کرتے ہیں چوکوں اور چوراہوں میں رکاوٹیں کھڑی کرکے شہروں کو جام کرنے والے کیا کرتے ہیں حتمی نتیجہ تو ان حرکتوں کا وہی نکلتا ہے جو دہشت گردوں کا مطمع نظر ہوتا ہے وہ بارود کے بم پھاڑتے ہیں یہ لفظوں اور جملوں کا گولہ بارود استعمال کرتے ہیں اثرات دونوں کے یکساں ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے معاملے کے اسی پہلو کی جانب عوام کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ خان حکومت اور حکمرانوں کے خلاف زبان درازی کرے تو یہ اس کا جمہوری استحقاق ہے وزیراعظم اس پر انتباہ جاری کریں تو انہیں جمہوریت یاد دلائی جاتی ہے یہ نا انصافی ہی نہیں شائستگی کے تقاضوں کی بھی نفی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف تو پھر بھی محتاط لب و لہجہ استعمال کرتے ہیں دوسری جانب تو کسی حدود وقیود کا احترام ہی عنقا ہے۔ دراصل وزیراعظم نواز شریف کی اپنی پاکستان مسلم لیگ نون کا دبائو ہے کہ اب کسی بدزبان کو مزید چھوٹ نہیں دی جائے گی وہ صورتحال سے عہدہ برآ ہونے کے لئے پورے طور پر لنگر لنگوٹ کس کر تیاربیٹھے ہیں۔