• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ کیونکہ دنیا بھر کے ممالک میں ایک سینئر کی حیثیت رکھتا ہے اور اسی مناسبت سے لندن کو دنیا کا کیپٹل بھی کہا جاتا ہے، اسی لئے دولتِ مشترکہ کےممالک سمیت سبھی ملکوں کی کوشش ہوتی ہے کہ لندن میں ان کا سفارتخانہ مضبوط تر اور سفارتکاری کلیدی حیثیت کی حامل ہو۔ امن، جنگ، تجارت، معاشیات اور اقتصادیات میں ممالک کے درمیان معاہدے و مفاہمت اور سب سے بڑھ کر اپنے ملک کے مفادات کا تحفظ سفارتکاری کے اولین فرائض میں شامل ہے۔ دسمبر 2019میں جب کورونا وائرس کے نام سے دنیا آشنا ہوئی، اس کے ایک سال بعد تک یا اس سے زیادہ عرصہ تک اس وبا سے اموات اور کیسز زیادہ تر امریکہ، برطانیہ اور یورپی ملکوں میں ہوتے رہے، برصغیر اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک بظاہر اس سے محفوظ تھے لیکن پھر اچانک مغرب میں جوں جوں اس وائرس پر قابو پانے کے حوالے سے تیزی آئی، تیسری دنیا کے ملکوں میں کورونا وائرس کے کیسز زیادہ ہونے لگے اور رواں سال مارچ میں خصوصاً بھارت میں کورونا کیسز اور اس سے ہونے والی اموات میں شدید اضافہ ہوا اور یہ شدید تر اضافہ بھارت کی مغربی ریاست مہاراشٹر میں ہوا، مارچ 2021میں بھارت کے وزیر صحت نے بھی اعتراف کیا کہ پورے ملک میں ہونے والے کیسز میں سے 15سے 20فیصد مہاراشٹر میں ہوئے ہیں اور یہی ریاست ملک بھر میں کورونا وائرس کا ہاٹ سپاٹ اور ملک میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کی ذمہ دار ہے۔

رواں سال فروری میں برطانوی سائنس دانوں اور حکومت کو احساس ہوا کہ وائرس کی ایک نئی قسم یو کے میں پھیل رہی ہے جو پہلے وائرس سے زیادہ خطرناک اور تیزی سے اثرانداز ہوتی ہے، اسے INDIAN VARIANTکا نام دیا گیا اس کے بعد برطانیہ بھر میں ایک شور سا مچ گیا جسے دیکھو اس کی زبان پر انڈین ویرینٹ سنائی دینے لگا، انڈین افراد سے لوگ دور ہٹنے لگے کیونکہ نفسیاتی طور پر برطانیہ میں رہنے والے سمجھنے لگے کہ خصوصی طور پر جو لوگ انڈیا سے واپس برطانیہ آ رہے ہیں وہ انڈین ویرینٹ پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔ بہت سے ایسے برطانوی شہر یا علاقے جہاں بڑی تعداد میں بھارت نژاد لوگ مقیم ہیں، وہاں حکومت نے لوکل لاک ڈائون لگا دیا لیکن جب حالات مزید بگڑے اور انڈیا کا نام وائرس کے حوالے سے بدنام ہونے لگا تو لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کی سفارتکاری کا آغاز ہوا۔ اُنہی دنوں برطانیہ نے کورونا وائرس کے ضمن میں بعض نئے ممالک کو بھی اپنی ریڈلسٹ میں شامل کیا، ان ممالک میں پاکستان کا نام بھی شامل تھا۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں بلکہ سرکردہ برطانوی پارلیمنٹرین کیلئے بھی حکومت کا یہ فیصلہ حیران کن تھا کہ بےشمار کیسز تو بھارت میں ہو رہے ہیں اور ہزاروں اموات روزانہ کی بنیاد پر بھارت میں ہو رہی ہیں لیکن ریڈلسٹ میں بھارت کی بجائے پاکستان کو ڈال دیا گیا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش 9اپریل کو ریڈلسٹ میں شامل کئے گئے۔میڈیا اور مختلف برطانوی حلقوں کا دبائو حکومت پر بڑھا تو پتا چلا کہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اپریل 2021کے آخر میں بھارت کا دورہ کرنا چاہتے تھے جو کہ شیڈولڈ تھا، اس متوقع دورے میں انہیں امید تھی کہ دونوں ممالک کے مابین کھربوں ڈالر کے معاشی معاہدے ہوں گے، اس لئے حکومت نے بھارت کو ریڈلسٹ میں شامل نہیں کیا بہرکیف شدید دبائو کے بعد وزیراعظم کو یہ دورہ ملتوی کرنا پڑا لیکن بھارت کو ریڈلسٹ میں نہ ڈالنے کے باعث ہزاروں کی تعداد میں انڈین ویرینٹ سے متاثرہ افراد بھارت سے برطانیہ پہنچے اور اس خطرنک وائرس کو پھیلانے کا سبب بنے چنانچہ انڈیا نے اس تکرار کو زائل کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اپنی کوششیں تیز کر دیں۔

اب صورتحال یہ ہے کہ عام طور پر یہی سمجھا جا رہا ہے کہ ’’انڈین ویرینٹ‘‘ کے بعد اس سے بھی زیادہ خطرناک ڈیلٹا یا ڈیلٹا پلس ویرینٹ آ گیا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈیلٹا ویرینٹ، اصل میں ’’انڈین ویرینٹ‘‘ ہی ہے لیکن اس بدنامی سے بچنے کیلئے بھارتی ہائی کمیشن لندن کی کامیاب سفارتکاری رنگ لے آئی اور اسی انڈین ویرینٹ کو اب ڈیلٹا ویرینٹ کہا جا رہا ہے ۔ برطانوی سائنس دانوں کے مطابق انڈین ویرینٹ پہلے سے موجود تمام وائرسز سے 30سے لیکر 100فیصد زیادہ خطرناک اور تیزی سے پھیلتا ہے اور اپریل سے آج تک پھیل رہا ہے۔ انڈین ویرینٹ کو یہ نیا نام رواں سال 2اپریل کو یوکے میں پہلی دفعہ دیا گیا بلکہ حکومت کے اس فیصلہ کے بعد ’’ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘‘ نے انڈین ویرینٹ کو ڈیلٹا ویرینٹ کہنا شروع کرکے اس کا کوڈ (B.1.617.2)رکھا اور 23اپریل کو جب انڈیا کو ریڈلسٹ میں شامل کیا گیا اس وقت تک یہ برطانیہ کے طول و عرض میں سرایت کر چکا تھا۔ ہم لندن سمیت پاکستان کے دنیا بھر میں موجود سفارتخانوں کو بھی خراج تحسین پیش کریں گے اگر وہ پاکستان کو ریڈلسٹ سے نکلوانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ حکومتِ پاکستان کی درست حکمتِ عملی سے ’’پی آئی اے‘‘ پر لگی پابندی ہٹوانے کیلئے اپنی صلاحیتیں آزمائیں گے۔ مسئلہ کشمیر پر کوئی حیرت انگیز کارنامہ کر کے دکھائیں گے، پاکستان پر آئے روز لگنے والے انتہا پسندی و دہشت گرد کے لغو الزامات پر کوئی مثبت سفارتکاری کریں گے، عالمی میڈیا خصوصاً برٹش میڈیا میں پاکستان کا ’’سافٹ امیج‘‘ دکھانے میں کوئی کلیدی کردار ادا کریں گے اور ’’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس‘‘ کی بلیک لسٹ سے پاکستان کو بچانے کیلئے اپنی بہترین سفارتکاری کے جوہر دکھائیں گے جس طرح زیرک حکمتِ عملی سے ’’انڈین ویرینٹ‘‘ کو ڈیلٹا ویرینٹ بنانے میں لندن کا بھارتی سفارتخانہ کامیاب رہا ہے اور وزیراعظم عمران خان بھی ابھی دو مہینے پہلے علانیہ کہہ چکے ہیں کہ ہمارے سفارتخانے بھارت کے سفارتخانوں کی طرح کام نہیں کرتے اور نہ ہی پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے بھارتی سفارتکاروں کی طرح کوششیں کرتے ہیں۔

تازہ ترین