• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم نواز شریف چین کے دورے پر ہیں۔ تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد یہ ان کا پہلا غیرملکی دورہ ہے۔ اسے آپ چین سے پاکستان کی دوستی کا حلف نامہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہم ایک زمانے سے اس دوستی کا ترانہ گارہے ہیں اور واقعی یہ رشتہ دنیا سے ہمارے تعلقات کا ایک اہم ستون ہے۔ میں نے یہ موضوع اس لئے چھیڑا ہے کہ اس دورے کی وجہ سے ، یعنی نواز شریف کے تعاقب میں، چین کا بھی کچھ ذکر ہوتا رہے گا۔ ہمارے میڈیا میں تصویریں تو خوب دیکھنے کو ملیں گی۔ ساکت بھی اور وڈیو بھی لیکن یہ مانتے ہوئے کہ چین ہمارا جگری یار ہے، ہم اسے جانتے کتنا ہیں؟ جن سے ہماری پکی دوستی ہو، ان کی زندگی سے ہمارا ایک رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔ ہم انہیں بہتر جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب یہ دیکھئے کہ چین کی کہانی نے پوری دنیا کو حیران کیا ہے۔ پوری تاریخ میں کسی ایک ملک نے اتنے کم عرصے میں اتنی حیرت انگیز ترقی نہیں کی۔ اس ترقی کا بنیادی پیمانہ تو معاشی ہے۔ دنیا کے بدلنے کا یہ ایک مستند حوالہ ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ سماجی تبدیلی کیلئے انسانی ، تہذیبی اور فکری وسائل زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ چین نے اتنی ترقی کیسے کی، اس کا علم ہمیں دوسرے ملکوں سے اسلئے زیادہ ہونا چاہئے کہ ہم تو اس کے اتنے قریبی دوست ہیں۔ قربت کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ چین اور پاکستان کی تو سرحدیں بھی ملتی ہیں۔ شاہراہ قراقرم دوستی کے اس بندھن کا ایک شاہکار بھی ہے اور چین کی تعمیراتی صلاحیت کا ایک نمونہ بھی لیکن دوستی کا یہ رشتہ اتنا عجیب ہے کہ چین ہمارے لئے جیسے ایک اجنبی ، غیر مانوس سرزمین ہے جسے ہم ٹھیک سے سمجھ نہیں پاتے۔جو کچھ میں کہنا چاہتا ہوں اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ ہم باقی دنیا کو جاننے اور اس سے سیکھنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کرتے۔ ہمارا میڈیا دوسرے ملکوں کی رپورٹنگ میں انتہائی کمزور رہا ہے۔ بڑی بڑی سرخیوں سے تو ہمارا تعلق قائم رہتا ہے۔ یعنی ہمہ گیر نوعیت کے واقعات اور حادثے تو ہمارے میڈیا کی توجہ حاصل کرلیتے ہیں۔ لیکن خبروں کے پس منظر کا تجزیہ ہم نہیں کرپاتے۔ یوں بھی ہم دنیا کو بڑی حد تک دوسروں کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ غیرملکی خبررساں ایجنسیاں ہماری معلومات کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اسکا مطلب یہ بھی ہے کہ حادثے کی خبر تو ہمیں مل جاتی ہے لیکن وقت اس حادثے کی پرورش کس طرح کرتا ہے، اس کا علم ہمیں نہیں ہوپاتا۔ دوسرے ملکوں اور معاشروں میں کس نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور وہاں مسائل کو حل کرنے کیلئے کس نوعیت کی حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے، اس پر غوروفکر کی ہمیں مہلت نہیں ملتی۔اب یہ دیکھئے کہ مصر میں گزشتہ تین سالوں میں دوسری بار ایک انقلاب رونما ہوا۔ صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ انتخابات کے ایک سال بعد ہی الٹ دیا گیا۔ اس تازہ خبر کی سرخیاں آپ نے دیکھ اور پڑھ لیں۔ لیکن ایسا کیوں ہوا اور اس ڈرامائی تبدیلی کی وجوہات کیا ہیں اور اس صورتحال سے کتنے سوالات کھڑے ہوسکتے ہیں، اس پر سنجیدہ اور معنی خیز گفتگو میں نے نہیں سنی۔ بات تو یہاں سے شروع ہوتی تھی کہ چین کی ترقی کو ہم کتنا جانتے ہیں اور اس سے کتنا سیکھ پاتے ہیں۔ مصر اور دراصل پوری مسلمان دنیا ہمارے لئے شاید زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور اس دنیا سے تو ہمارا ایک تاریخی اور جذباتی رشتہ بھی ہے۔ جو سوالات ہم پاکستان میں فوج کی مداخلت، جمہوریت اور مذہبی اور لبرل قوتوں کے درمیان تصادم کے بارے میں اٹھاسکتے ہیں ان سب کا تعلق مصر کے موجودہ بحران سے بھی ہے۔ اگر آپ مغربی ملکوں کے میڈیا سے واقفیت رکھتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ مشرق وسطیٰ اور عرب دنیا میں گزشتہ دو تین سالوں میں جو ہلچل پیدا ہوئی ہے اس کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے۔ ترکی میں جو اچانک احتجاج کی ایک لہر اٹھی، وہ بھی ہمارے لئے ایک بڑا موضوع نہ بن سکی حالانکہ جو عذاب ہم اپنے ملک میں سہہ رہے ہیں اس کا ایک گہرا تعلق دوسرے مسلمان ملکوں کے حالات و واقعات سے بھی ہے۔ میرا اشارہ یہاں فرقہ واریت کے عفریت سے ہے۔ اور چلتے چلتے صرف ایک بات میں یہ کہوں کہ برصغیر میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ایک تاریخی حوالہ یہ ہے کہ مغلیہ سلطنت کے زمانے میں یہاں ان لوگوں کو پناہ ملتی تھی جو ایک طرف سلطنت عثمانیہ اور دوسری طرف ایران سے فرار ہوتے تھے۔ لیکن یہ ایک مشکل اور پیچیدہ موضوع ہے۔ اس ضمن میں عراق کی خونی داستان بھی اہم ہے اور آج کل شام میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا تجزیہ بھی ضروری ہے۔ گویا مسلمان دنیا جس کشمکش میں مبتلا ہے اور جس طرح بدل رہی ہے اور عالمی طاقتیں کیا رول ادا کررہی ہیں اس پر ہمارے ملک میں کوئی تفصیلی اور معلومات افزا بحث ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
میں نے یہ کہا کہ چین سے ہماری سرحد ملتی ہے اور پھر بھی ہم اس ملک کو اچھی طرح جانتے بھی نہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا ملک آبادی کے لحاظ سے اور وہ واحد ملک جس کی چار ہزار سال سے زیادہ کی تاریخ پورے تسلسل کے ساتھ موجود ہے۔ اور ہم اس سے محبت کا دم بھی بھرتے ہیں۔ اس رشتے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ چین سے ہمارے تاریخی ، مذہبی اور تہذیبی مراسم نہیں رہے۔ جن دوسرے ملکوں سے ہماری سرحدیں ملتی ہیں، ان کی کہانی میں تو ہم شامل بھی رہے ہیں۔ تو کیا ہم نے ان ملکوں کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور کیا ہم ان کے تجربات سے کچھ سیکھ رہے ہیں؟ سب سے اہم رشتہ تو ظاہر ہے کہ ہندوستان سے ہے۔ برصغیر کے ان دوملکوں کے تعلقات نے دنیا بھر کے دانشوروں کو مصروف رکھا ہے۔ ہمارا معاملہ کچھ اور ہے۔ ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ہندوستان کو پڑھنے کی کوئی قابل ذکر روایت قائم نہیں کی گئی۔ افغانستان اور ایران میں ایسے انقلابات رونما ہوئے کہ پوری دنیا میں ان کی گونج سنی گئی لیکن ایسا نہیں ہوا کہ ہمارے اخبار نویس، مبصر اور دانشور ان دوملکوں کو باقی دنیا سے متعارف کراتے اور ان پر سند سمجھے جاتے۔ اس کے برعکس ، افغانستان اور ایران کو ہم نے دوسرے ملکوں کے میڈیا اور کتابوں اور فلموں کے توسط سے جاننے کی کوشش کی۔
چین سے تو ہمارا اس طرح کا تعارف بھی ابھی نہیں ہوا۔ ہمارے فکری اور سیاسی حلقوں میں اس سوال کو اہمیت حاصل نہیں ہوئی کہ چین کی ترقی کا راز کیا ہے۔ جب ہم آزاد ہوئے تو چین خانہ جنگی کا شکار تھا اور اس کا کمیونسٹ انقلاب دوسال دور تھا۔ چین کے علاوہ مشرق بعید کا ایک اور ملک، جنوبی کوریا بھی کبھی ترقی کی دوڑ میں ہم سے پیچھے تھا اور اب ہم سے اتنا آگے ہے کہ سوچتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ دنیا میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں اور ہورہی ہیں وہ سب ہمارے سامنے ہیں۔ سیاہ فام افریقہ کی ایک الگ داستان ہے۔ آج کل دنیا کی نظریں نیلسن منڈیلا پر مرکوز ہیں۔ روشنی کا ایک مینار جو ایک تاریک براعظم کے بطن سے پیدا ہوا۔ اس وقت دنیا میں جو دس ملک سب سے تیز رفتار ترقی کررہے ہیں ان میں سے چھ کا تعلق افریقہ سے ہے۔ اور ہمارا کیا حال ہے؟ جس دہشت گردی نے ہمیں لہولہان کردیا ہے وہ کہاں سے آئی۔ اور کیوں ہم اس پر قابو نہیں حاصل کر پارہے؟ کراچی میں جو تھکے ہارے لوگ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ، بسوں کی چھت پر سفر کرتے ہیں۔ ان سے تو یہ سوال نہیں پوچھے جاسکتے۔ ہاں، وہ جو اقتدار کے ایوانوں میں، ایک محفوظ زندگی گزار رہے ہیں ان سے ضرور یہ توقع کی جانا چاہئے کہ وہ اپنے ملک کو دنیا کے آئینے میں دیکھنے کی جرأت کریں گے۔
چین کے بارے میں میرے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے اور میری اپنی یادیں بھی اس تبدیلی کی گواہ ہیں جس نے تاریخ کا ایک نیا باب رقم کیا ہے۔ مجھے سب سے پہلے چین جانے کا موقع تب ملا جب اپنے انگریزی اخبار کے لئے میں نے 1982ء میں جنرل ضیاء الحق کے چین اور شمالی کوریا کے دورے کی رپورٹنگ کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بیجنگ کی کشادہ شاہراہوں پر ایک بھی پرائیویٹ کار دکھائی نہیں دیتی تھی۔ ایک تجربہ کار اخبار نویس ساتھی نے مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ دیکھو، اس کمیونسٹ ملک میں ایک شخص بھی خوش دکھائی نہیں دیتا۔ صرف پانچ سال بعد، جب 1987ء میں ایک کانفرنس کیلئے بیجنگ میں کئی دن گزارے تو دنیا بدلنا شروع ہوچکی تھی۔ اس کے بعد 2000 میں ایسا ہی ایک اور موقع ملا اور تین سال قبل میں نے بیجنگ میں ایشیاء میڈیا سمٹ میں شرکت کی تو بیجنگ کے اولمپک کھیل منقعد ہوچکے تھے۔ اب نواز شریف اور ان کے ساتھ جانے والے وفد کی ملاقات جس چین سے ہورہی ہے وہ ہمارے لئے ایک طلسماتی سرزمین کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہی تو ہے جو ہمارا پرانا دوست ہے۔ لیکن ہم اس کے ساتھ ساتھ کیوں نہ چل سکے؟
تازہ ترین