• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی حکومت کی طرف سے 20اپریل کو سول سرونٹس ایکٹ 1973 کے سیکشن 25 جو کہ 27 فروری 1998 کے ایس آر او 120(1)98 کے ساتھ پڑھا جاتا ہے،کے تحت ملازمت سے جبری ریٹائر کرنے کے رولز 2020 کے حوالے سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ اس کے مطابق گریڈ 17 سے 19 کے افسران کی جبری ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کرنے کے لئے جو کمیٹیاںتشکیل دینے کا کہا گیا ان کے چیئرپرسن ایڈیشنل سیکرٹری یا ان کی غیر موجودگی میں سینئر جوائنٹ سیکرٹری ہوں گے جبکہ ممبران میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا کم از کم گریڈ 20 کا افسر،فنانس ڈویژن اور وزارت قانون و انصاف کے کم از کم گریڈ 20 کا افسر،فنانس ڈویژن اور وزارت قانون انصاف کے کم از کم گریڈ 20 کے نمائندے، جبری ریٹائر کئے جانے والے افسر کے محکمے کا سربراہ شامل ہوں گے جبکہ سیکرٹری کمیٹی متعلقہ محکمے کا ڈپٹی سیکرٹری ہوگا۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق ایسے افسران کے خلاف کارروائی ہوگی جو سروس کے دوران ترقی کے وقت 2مرتبہ سپر سیڈ ہو چکے ہوں، جن کی پرفارمنس رپورٹ 3مرتبہ اوسط درجے سے نیچے رہی ہو، جنہیں ہائی پاورڈ سیکشن بورڈ کی طرف سے 2مرتبہ محکمانہ ترقی دینے کا اہل قرار نہ دیا گیا ہو، یا پھر وہ کرپٹ ہوں اور ان پرنیب کی انکوائریاں زیر التوا ہوں اور وہ پلی بارگین کر رہے ہوں یا کر چکے ہوں۔اس نوٹیفیکیشن کے بعد بننے والے ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ بورڈ نے اپنی 19، 21 اور 22 اپریل کی میٹنگز میں گریڈ 20 اور اس سے اوپر کے 1383 سول سرونٹس کے ناموں پر جبری ریٹائرمنٹ کے حوالے سے غور و خوض کیا لیکن کوئی حتمی سفارشات مرتب نہیں کرسکا۔ وزیراعظم عمران خان کی مرضی اور خواہش کےمطابق جس دن سے جبری ریٹائرمنٹ کے یہ رولز بنے ہیں بیوروکریسی میں ایک عجیب کھلبلی مچ گئی ہے۔ دو روز قبل سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے کیبنٹ کا اس حوالے سے اجلاس ہوا جہاں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن افضل لطیف بھی اس کمیٹی کے روبرو پیش ہوئے۔ اس کمیٹی کے سربراہ سینیٹر رانا محمد مقبول ہیں جو پولیس سروس آف پاکستان سے تعلق رکھنے والے سابق بیوروکریٹ ہیں۔ اسکے علاوہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی بہن سینیٹر سعدیہ عباسی اورسینیٹر سرفراز بگٹی بھی کمیٹی کا حصہ ہیں۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ افضل لطیف ایک دیانتدار اور سخت افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں،سے کہا گیا کہ جبری ریٹائرمنٹ کے لئےبنایا گیا یہ بورڈ ان افسران کے خلاف کیسے کارروائی کرسکتا ہے کہ جب معاملات عدالتوں میں ہیں۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو بہرحال سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ وہ باز آ جائیں۔ بیوروکریٹس اور خاص طور پر کرپٹ اور نااہل بیوروکریٹس کی لابی بہت مضبوط ہے۔ کئی طرف سےا سٹینڈنگ کمیٹی پر دبائو ڈلوانے کی کوشش کی گئی ہوگی یا پھر ہو سکتا ہے کہ حقیقت میں دبائو ڈلوایا بھی گیا ہو۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے جبری ریٹائرمنٹ رولز 2020 کےخلاف اسلام آباد ہائیکورٹ نے 30 سے 40 درخواستیں خارج کردی تھیں اور اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا تھا کہ حکومت پالیسی اور رولز پر عملدرآمد کا اختیارر کھتی ہے۔ اب اس حوالےسے بھی چھان بین ضروری ہے کہ آیا کسی دوسری عدالت نے جبری ریٹائرمنٹ کے خلاف باقاعدہ حکم امتناعی جاری کر رکھا ہے یا پھر اسکے خلاف درخواستیں سماعت کیلئے وصول کی گئی ہیں۔ بہرحال وقت گزرنے کیساتھ ساتھ بیوروکریسی سارا معاملہ (MANAGE)کر رہی ہے۔ افضل لطیف تگڑے افسر ہیں لیکن معاملہ کچھ لٹکتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ بیوروکریسی اب یہ کوشش کر رہی ہے کہ سیاستدانوں کے ذریعے معاملے کو لٹکایا جائے۔ پولیٹکل میکنزم کے ذریعے جبری ریٹائرمنٹ کے معاملے کو لٹکایا جا رہا ہے اور ساری لابیز ایکٹو ہوگئی ہیں۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ افضل لطیف کو کمیٹی اجلاس میں ایک طرح سے شرمندہ کرکے دبائو میں لانے کی کوشش کی گئی۔ حکومت ویسے بھی کئی اہم معاملات میں پالیسیوں پر عملدرآمد کرانے کی کم ہی اہلیت رکھتی ہے۔ اگر کرپشن کے خاتمے اور کرپٹ افسران کو نکال باہر کرنے کی پالیسی بنا ہی لی گئی ہے تو پھر وزیراعظم بطور چیف ایگزیکٹو سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو اس پالیسی پر عملدرآمد کے لئے صاف اور واضح ہدایات جاری کریں۔ وزیر اعظم کی اپنی کمیٹی کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ میرے ایک دوست، جو کہ سینئر بیوروکریٹ ہیں، سے ایک دن گریڈ 21 سے 22 میں ترقیوں کے حوالے سے بات ہوئی تو ایک اور افسر کا ذکر کرتے ہوئے میں نے کہا کہ مشکل لگتا ہے ان کی گریڈ 22میں ترقی ہو کیونکہ ان کے متعلق کچھ نیگیٹیو رپورٹس سننے میں آئی ہیں۔ میرے اس اندازے پر میرے دوست نے کہا کہ سب ٹھیک ہے لیکن اگر وزیراعظم چاہتے ہوں کہ کسی افسر کو ترقی دینی ہے تو پھر ایسی رپورٹس کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر وزیراعظم چاہیں تو پھر کرپٹ افسران کی جبری ریٹائرمنٹ کا راستہ روکنے کی بھی کوئی گنجائش نہیں بچتی۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جان بوجھ کر ناروا سلوک رکھا جا رہا ہے تاکہ وہ اس سارے معاملے سے بیک آئوٹ کر جائیں اورٹھنڈے پڑ جائیں لیکن کہیں یہ نہ ہو کہ وہ جسے پنجابی میں کہتے ہیں ’’خود ان کا پتہ کٹ جائے۔‘‘ افضل لطیف سخت فیصلے لینے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیاوہ اس معاملے میں کچھ کر پائیں گے؟ کیونکہ بے شک ان میں مشکل حالات سے لڑنے کی صلاحیت، ہمت اور اہلیت ہے لیکن آخر کار وہ بھی اس سسٹم کا حصہ ہیں اورانہیں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ بھی رہنا ہے۔ اسلام آباد میں افسران کی گریڈ 21 سے 22 میں ترقیوں کیلئے ہائی پاورڈ بورڈ کا اجلاس بھی رواں ہفتے ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ہوسکتا ہے بورڈ کا اجلاس 7 یا 8 جولائی کے روز ہو۔ اس اجلاس کے حوالے سے بھی گزشتہ دوماہ سے سنا جا رہا ہےلیکن مصدقہ اطلاعات یہی تھیں کہ بجٹ کے بعد یہ ہوگا کیونکہ کچھ ’’پیارے‘‘ بیوروکریٹس کی ترقیوں کیلئے گریڈ 21 میں 2سال ہونا ضروری تھے۔ کچھ کے تو شاید مارچ 2021میں ہی پورے ہوگئے تھے۔ پنجاب کے انسپکٹر جنرل آف پولیس انعام غنی کو گریڈ 21 میں 6جولائی کو 2 سال ہو جائینگے۔ ان کی گریڈ 22 میں ترقی کا فیصلہ بھی اسی بورڈ میں ہونا ہے۔ گریڈ 20 سے 21 میں ترقیوں کیلئے سینٹرل سلیکشن بورڈ اس کے بعد ہوگا جس میں گریڈ 21 سے 22میں جانے والے افسران کی خالی ہونیوالی پوسٹوں پرتعیناتیاں کی جائیں گی۔

تازہ ترین