• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بڑے نالوں کی صفائی لیکن چھوٹے نالوں پر کوئی توجہ نہیں

بارش کا زمانہ آنے والا ہے ۔ کہیں کہیں بڑے نالوں کی صفائی کا کام جاری ہے۔ لیکن چھوٹے نالوں پر کوئی توجہ نہیں ہے جو پورے کے پورے مٹی اور کچروں سے بھرے پڑے ہیں۔ بعض نالوں میں تو بڑے بڑے درخت موجود ہیں ۔ ایسے میں پانی کا بہائو کیسے ممکن ہوگا۔ کراچی میں اس پچھلے کئی سالوں سے غیر معمولی بارشیں ہو رہی ہیں ۔ اس سال کے لیے بھی یہ توقع ہے کہ پچھلے سالوں سے زیادہ بارش ہو گی۔ ایسے میں شہری انتظامیہ کی طرف کوئی عملی قدم اٹھتا نظر نہیں آرہا ہے۔ کراچی کے وہ علاقے جو پچھلے دو سالوں کی بارش میں پورے ڈوب گئے تھے، یا جن علاقوں میں کئی دنوں تک پانی کھڑا رہا تھا، یا جن علاقوں میں گھروں میں پانی داخل ہوگیا تھا۔ اس سال ان علاقوں کے لیے کیا کوئی حفاظتی یا احتیاطی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں؟ بظاہر ابھی تک ایسا کچھ بھی نہیں نظر آرہا ہے۔ پرانے علاقوں میں جہاں نکاسئ آب کا نظام بالکل درست تھا وہاں عین نالوں پر بڑے بڑے کمرشل ادارے بنا دیئے گئے ہیں۔ جو بظاہر صحت اور تعلیم کے شعبے میں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ لیکن جن علاقہ مکینوں کے نکاسئ آب کے نظام کو روک کر یہ خدمات انجام دی جارہی ہیں، ذرا ان مکینوں کے دل کا حال بھی معلوم کیجئے۔ نالوں پہ قبضہ کرکے بنی ان شاندار عمارتوں نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ یہ رہائشی کوئی غریب یا کم آمدنی والے لوگ نہیں ہیں۔ لیکن ہر سال بارشوں کے ان کے گھر کی دیواریں ، فرنیچرز، بجلی کے آلات اور باورچی خانہ کا سامان جس طرح برباد ہوتےہیں ان کو مالی مشکلات کا شکار کردیتے ہیں اور دوسرے طرف ذہنی اذیت۔ شروع بارشوں کے فورا بعد تو یہ گھر سے نکل نہیں پاتے اور گھروں میں پانی بھرا رہنے کی وجہ سے رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ کئی دن تو یہ لوگ جاگ جاگ کر گزارتے ہیں ۔ لیکن چونکہ یہ غریب علاقے کے مکین نہیں تو ان کی حالت زار کی کسی کو فکر نہیں۔ انہیں جو کرنا ہے خود کرنا ہے۔ لیکن افسوس جب اپنی مدد آپ کے تحت یہ علاقے کی صفائی کرواتے ہیں اور نالوں میں قائم رکاوٹوں کی نشاندہی کرتے ہیں تو فورا حکومتی نمائندے آڑے آجاتے ہیں اور ان لوگوں کو دھمکیاں دیتے ہیں کہ آپ قانون کو ہاتھ میں لے رہے ہیں۔ یہ کام ڈپٹی کمشنر کے حکم سے ہی ہوسکتا ہے آپ اپنی مدد آپ کے تحت یہ سب کرنے کی کوشش بھی نہیں کرسکتے ورنہ "کار سرکار میں مداخلت کا مقدمہ " قائم ہوسکتا ہے۔ ایسے میں کون آگے بڑھنے کی کوشش کرئے گا؟لیکن ایک کوشش اس کالم کے ذریعے سے کرنے کی جارہی ہے۔ ہر گلی کوچے کے نالوں کی صفائیکروالی جائے اور پھر علاقہ مکینوں کو اس کی صفائی کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری سونپی جائے تاکہ پھر کوئی کچرا نہ ڈالے اور چند دنوں میں پھر وہ دوبارہ نہ بھر جائے۔ اب دیکھتے ہیں کہ بارشوں کی آمد سے قبل کوئی پیش رفت ہوتی بھی ہے کہ نہیں۔دوسری طرف ہر سال بارشوں کے موسم میں تیز ہواؤں کی وجہ سے عمارتوں پہ لگے بڑے بڑے بل بورڈز زمین پر گرتے ہیں۔ جن کی بدولت کئ راہ گیر زخمی ہوجاتے ہیں، کوئی معذور ہوجاتے ہیں تو کبھی کوئی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ عدالت عظمی نے اس پر سخت ایکشن لیا ۔ متعلقہ اداروں پہ سختی کرنے سے یہ بل بورڈز ہٹا لیے گئے ۔ لیکن جیسے ہی بارشوں کا موسم ختم ہوتا ہے دھیرے دھیرے یہ بل بورڈز پھر سجنا شروع ہوجاتے ہیں اور کوئی کاروائی نہیں ہوتی۔ چند پیسوں کی خاطر فلیٹوں کے مکین اپنی گھر کی کھڑکیاں بند کرواتے ہیں ۔ کیا ان فلیٹوں میں چوبیس گھنٹے بجلی رہتی ہے کہ انھیں تازہ ہوا کی ضرورت نہیں ۔ چلیں تازہ ہوا کو چھوڑ دیں کیا ان لوگوں کو حس نہیں کہ تیز ہواؤں کی وجہ سے یہ بل بورڈز کسی نہ کسی پر گر جاتے ہیں اگر ہم وہ جند روپے نہ لیں اور بل بورڈ لگانے کی اجازت نہ دیں شاید ہم کسی کی جان بچا لیں، کسی کو معذوری سے بچا لیں۔ حدیث میں بھی ہے کہ" مسلمان وہ ہے کہ جس زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے"۔ ایک اور جگہ ہے کہ" جس نے ایک انسان کی جان بچائی تو اس نے گویا انسانیت کو بچایا"۔ لیکن کیا بحیثیت مسلمان ہم انسانیت کو محفوظ کر رہے ہیں۔ ہمیں صرف اور صرف اپنے مادی فائدے سے غرض ہے۔ انسانیت کس چڑیا کا نام ہے۔ لیکن سوچ لیجئے! بل بورڈز گرنے سے پہلے اپنے "مالک کی پہچان" نہیں گرتے۔ کہیں اگلی باری ہماری ہی نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین