• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ذوالفقار علی بھٹو بحیثیت انسان اور سیاسی رہنما بہت سی خوبیوں کے مالک تھے اور انسان ہونے کے ناتے ان میں کچھ خامیاں بھی تھیں کیوں کہ وہ ایک انسان تھے، کوئی روبوٹ یا فرشتہ نہیں اور انسان اپنے فیصلوں میں خود مختار ہوتا ہے۔ قدرت نے اسے فیصلے کا اختیار دے کر باقی مخلوق سے ممتاز کیا ہے۔ غلطیاں اور کوتاہیاں اسی فیصلے کے نتیجے میں سرزد ہوتی ہیں۔ اسی لئے شاید اسے خطا کا پتلا بھی کہا جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو عوام کی خوشحالی، طبقاتی مساوات، معاشی آزادی اور فرد کے بنیادی حقوق کا علم تھامے سیاست کی پرخار وادی میں داخل ہوا تو اسے بڑی گرمجوشی سے خوش آمدید کہا گیا۔ وہ پہلا لیڈر تھا جسے لوگ محبت اور عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ عام آدمی کی بھلائی اور ریاست کے وقار کو بلند کرنا اس کا منشور تھا۔ اپنے منشور میں وہ کتنے فیصد کامیاب ہوا یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ دور بہرحال ہر طرح سے جمہوریت، خوشحالی، عوام کے بلند مورال، امن و امان، قومی یکجہتی، لبرل سوچ، آزادیٴ اظہار، مذہبی عدم تشدد اور ایشوز پر توجہ مرکوز کرنے کا آغاز تھا۔ اگر وہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا تو آج پاکستان بھی چین کی طرح صحیح معنوں میں ایک آزاد، خود مختار اور خود کفیل ملک ہوتا۔
5 جولائی صرف دنیا کے طالع آزماؤں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے، اسلامی بینک کے قیام کے خواہاں اور پٹرول کی سپلائی کے حوالے سے اہم پیشرفت کرنے والے، اسلامی بلاک کے ذریعے مسلم ملکوں کے وقار اور مضبوط معیشت کے حامی، عام انسان کی معاشی اور سماجی حالت کو بدلنے کا خواب دیکھنے والے اور اقوام عالم میں پاکستانیوں کو عزت اور توقیر دلوانے والے وزیراعظم کو غیر قانونی طریقے سے اقتدار سے الگ کرکے جیل بھیجنے کا ہی دن نہیں تھا جسے پاکستان کی اکثریت نے اپنی رائے سے منتخب کر کے اقتدار اور عوامی خدمت کا فریضہ سونپا تھا بلکہ صحیح معنوں میں یہ دن ایک لمبے اور تاریک سفر کا آغاز تھا، ایک ایسے راستے پر جہاں قدم قدم پر کھڈے، دلدلیں اور کانٹے بچھائے گئے تھے۔ یہ دن ایک گرینڈ پلان کا نقطہ ٴ آغاز تھا جس پر ابھی تک عمل جاری ہے۔ سب سے پہلے پاکستان کو ایک غیر جانبدار اور آزاد ملک کی پہچان سے الگ کر کے ایک لیبارٹری کا درجہ دے دیا گیا اور بہت سے ملکوں کے سیاسی سائنسدانوں کو اپنے اپنے مفادات کے حوالے سے تجربے کرنے کی اجازت دی گئی۔ ان لیبارٹریوں میں معصوم پاکستانی قربان کئے جانے کی رسم ڈالی گئی۔ حکومت سمیت تمام بڑے اداروں میں غیر ملکی مداخلت کی راہیں ہموار ہوئیں اور تمام معاملات تک نہ صرف انہیں رسائی دی گئی بلکہ ان کی مرضی اور منشاء سے فیصلے کرنے کا دور شروع ہوا۔ لوگوں کا اپنی ذات سے اعتماد ختم کر کے انہیں ڈانواں ڈول کیا گیا کہ وہ اپنی زمین اور اس سے جڑے معاملات سے لاپروا ہوجائیں۔ خوف، بے یقینی اور عدم استحکام کی فضا عوام کا مقدر کردی گئی۔ روشن خیالی کی بجائے رجعت پسندی کا بول بالا ہوا۔ قوم کو فرقہ پرستی، لسانیت، علاقائیت، برادریوں اور قبیلوں میں تقسیم کرنے کا عمل شروع ہوا تو عام اور خاص میں لکیر گہری ہو گئی۔ آزادانہ فکر، تحریر اور تقریر پر سرِ عام کوڑوں کی سزا دے کر انسان کی تذلیل کی پرانی روایت زندہ کی گئی۔ تعلیم، ہنر، آرٹ اور فن کی دلدادہ نوجوان نسل کا ذہن نشے کے ذریعے مفلوج کرنے کی سعی کی گئی۔ کلاشنکوف اور ہیروئن کو متعارف کروایا گیا۔ رفتہ رفتہ لوگ علم کی دولت کی بجائے اسلحے کی طاقت کے حصول پر توجہ دینے لگے اور قانون کی حکمرانی پر عہدوں کے اثر و رسوخ اور تعلقات اثر انداز ہونے لگے۔ ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ چلنے کے لئے جدید سائنس کو اپنانے کی بجائے روایتی اداروں کی تعلیم کو اہمیت دی گئی جو صرف لکیر کے فقیر بنانے پر قادر تھے۔ 5 جولائی 1977ء کے اثرات صرف ضیاء الحق دورِ حکومت تک محدود نہیں تھے بلکہ یہ سلسلہ ابھی تک موجود ہے۔ 12 اکتوبر 1999ء کا اقدام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا بلکہ وہ تمام حکومتیں جو اپنی میعاد سے پہلے ختم کر دی گئیں ان کے پیچھے بھی یہی عوامل کارفرما تھے۔ 5 جولائی اور 12اکتوبر دونوں میں ایک خاص تسلسل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ 5 جولائی والے اسکرپٹ کی یہ دوسری قسط تھی تو بے جا نہ ہو گا کیوں کہ 12 اکتوبر کے بعد بھی انہی تمام حربوں اور سازشوں کا قوم کو سامنا کرنا پڑا اگرچہ اس دفعہ بظاہر ترقی پسند سوچ کا لیبل لگایا گیا تھا مگر اندر خانے بات وہی تھی۔ آج 36 سال گزرنے کے بعد 5 جولائی کو بوئی جانے والی فصل زمین کا سینہ اس حد تک زہر آلود کر چکی ہے کہ اس کا سانس لینا آہ بھرنے کے مترادف لگتا ہے۔ یہاں ہونے والے واقعات پر پورا ماحول بین کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ آئیے عہد کریں کہ حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو اس ملک میں کبھی بھی 5 جولائی کا واقعہ دہرایا نہ جائے۔ عوام کا حق عوام کے پاس ہی رہنے دیا جائے، وہی منتخب اور مسترد کرنے کے مجاز ہوں۔ پوری دنیا اس وقت جمہوریت کے گیت گا رہی ہے مگر کس قدر دکھ کی بات ہے کہ جولائی کے پہلے ہفتے میں مصر میں ایک بار پھر جمہوریت کا گلا گھونٹ کر آمریت کو نوازا گیا ہے اور اپوزیشن خوشیاں منا رہی ہے۔ جس طرح کچھ عرصہ قبل تک پاکستان میں بھی یہی کچھ کیا جاتا تھا لیکن اب پاکستان کے سیاست دان اور بڑے اداروں کے کرتا دھرتا اس حقیقت سے آشنا ہو چکے ہیں کہ اس ملک کی بقا، یکجہتی اور ترقی کا راز صرف جمہوریت میں پنہاں ہے۔
تازہ ترین