• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس کہانی کی ابتدا نادرا کے دفتر سے ہوئی تھی۔ شناختی کارڈ بنانے والے ادارے کے ایجاد ہونے سے پہلے نادرا نام صرف خواتین کا ہوا کرتا تھا۔ اپنی اپنی ذات پات اپنے نام کے ساتھ لگا کر خواتین ایک دوسرے سے الگ تھلگ نادرا بن جاتی تھیں۔ مثلاً نادرا جٹی، نادرا خاصخیلی، نادرا ٹکر، نادرا قاضی، نادرا حیدرآبادی، نادرا علی، نادرا سیالکوٹی وغیرہ۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، شناختی کارڈ بنانے کا ادارہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں عالم وجود میں آیا تھا۔ تب شناختی کارڈ بنانے والے ادارے کا نام کچھ اور تھا۔ اس نام کا کوئی مخفف نہیں تھا۔ ہم سب نے شناختی کارڈ کی سخت مخالفت کی تھی۔ ہم نے محسوس کیا تھا کہ جیلوں میں بند قیدیوں کی طرح ہمیں نمبر دئیے جارہے تھے۔ آئندہ ہم اپنے نام سے نہیں، بلکہ سرکار کی طرف سے دئیے گئے نمبر سے بلائے جائیں گے۔ سرکاری نمبر کے بغیر ہمیں پاکستان کا شہری نہیں سمجھا جائے گا۔ ایک شہری ہونے کے ناطے ہمارے کسی قسم کے بنیادی حقوق نہیں ہوں گے۔

ہمیں ملازمت نہیں ملے گی۔ ہم بینک میں اکائونٹ کھول نہیں سکیں گے۔ املاک نہ بیچ سکیں گے، اور نہ املاک خرید سکیں گے۔ حتیٰ کہ شناختی کارڈ کے بغیر آپ ٹرین اور ہوائی جہاز کے ذریعے سفر کرنے کے لئے سیٹ بک نہیں کراسکتے۔ آپ کرائے پر مکان نہیں لے سکتے۔ سوئی گیس والے، بجلی فراہم کرنے والے اور پانی کا کنکشن دینے والے آپ کو کنکشن نہیں دیں گے۔ شناختی کارڈ بنانے والے ادارے کے ایک دبنگ افسر کا تاریخی جملہ مجھے آج تک یاد ہے۔ یہ تاریخی جملہ میں نے 1974 کے لگ بھگ راولپنڈی میں احتجاج کے دوران سنا تھا۔ دبنگ افسر نے کہا تھا، ’’ہم آپ کی شناخت پر تصدیق کی آخری مہر لگاتے ہیں‘‘۔

میرے کہنے کا مطلب ہے کہ میں کسی نادرا بی بی سے ملنے اس کے دفتر نہیں گیا تھا۔ میں شناختی کارڈ بنانے والوں کے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا۔ میری ریٹائرمنٹ اور میرے سینئر سٹیزن بن جانے کے بعد میرا شناختی کارڈ انتقال کر گیا تھا، یعنی Expireہوگیا تھا۔

نادرا کی طرف سے اب مجھے ایسا شناختی کارڈ جاری ہونا تھا جوکہ تاحیات یعنی دنیا میں آخری سانسیں لینے تک میرا ساتھ دے گا۔ میرے ساتھ میرا تاحیات شناختی کارڈ بھی انتقال کرجائے گا۔ دفتر میں چھ کے قریب میزیں لگی ہوئی تھیں۔ میز کی ایک طرف افسر اور دوسری طرف شناختی کارڈ بنوانے کا درخواست گزار بیٹھا ہوا تھا۔ تب میں نے قریب کی میز پر کام کرنے والے افسر کی آواز سنی۔ اس کے لہجے میں تعجب تھا، حیرانی تھی۔ اس نے فارم دیکھتے ہوئے درخواست گزار سے پوچھا، ’’کالم میں والد کا نام لکھنے کے بجائے یہ تم نے کیا لکھ دیا ہے؟‘‘

درخواست گزار سترہ اٹھارہ برس کا نوجوان تھا۔ اس نے اپنے فارم پر نگاہ ڈالی اور کہا۔ ’’ٹھیک ہی لکھا ہے میں نے‘‘۔

افسر نے حیرانی سے کہا۔ ’’والد کا نام لکھنے کے بجائے تم نے فارم میں یہ کیا لکھ دیا ہے؟‘‘

’’نامعلوم‘‘۔ نوجوان نے سپاٹ لہجے میں کہا۔ ’’میں نہیں جانتا کہ میرا باپ کون تھا‘‘۔

افسر نے سخت لہجے میں کہا۔ ’’جانتے ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو‘‘۔

نوجوان نے سپاٹ لہجے میں کہا۔ ’’جانتا ہوں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں‘‘۔

افسر نے تقریباً غصہ سے کہا۔ ’’تم اپنی ماں کی کردار کشی کررہے ہو‘‘۔

نوجوان نے افسر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’میں نہیں جانتا کہ میری ماں کون تھی‘‘۔

دفتر میں اچانک سناٹا چھا گیا۔ دفتر میں موجود سب لوگوں نے پلٹ کر نوجوان کی طرف دیکھا۔ وہ نوجوان مشکل سے سترہ اٹھارہ برس کا لگتا تھا۔ افسر کے ہر سوال کا جواب وہ اطمینان سے دے رہا تھا۔ اس کے لہجے میں کسی قسم کی ناراضی نہیں تھی۔ وہ کسی سے خفا نہیں تھا۔ میں بھول گیا کہ نادرا کے دفتر میں بیٹھا ہوا میں کیا کررہا تھا۔ میری تمام تر توجہ نوجوان کی طرف مبذول ہوگئی تھی۔

افسر نے میز پر بانہیں رکھ کر، آگے جھک کر طنزیہ لہجے میں نوجوان سے کہا۔ ’’تم اپنی والدہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ تم اپنے والد کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ تو پھر کیا تم آسمان سے ٹپکے تھے اور درخت میں اٹکے تھے؟‘‘

نوجوان نے اطمینان سے جواب دیتے ہوئے کہا۔ ’’میں نوزائیدہ عبداللہ یتیم خانہ والوں کو گٹر بغیچہ کے قریب کچرے کے ڈھیر پر پڑا ہوا ملا تھا‘‘۔

نوجوان کے لہجے میں اس قدر تحمل اور اعتماد تھا کہ نادرا کے دفتر میں بیٹھا ہوا ہر شخص دنگ رہ گیا۔ ایک صدی کی طرف رینگتی ہوئی زندگی میں پہلی مرتبہ میں نے ایک ایسا شخص دیکھا تھا جو اپنی والدہ اور والد سے بے خبر تھا۔ اور اس حقیقت کا اعتراف کررہا تھا۔

بے چین کرتی ہوئی خاموشی کو نوجوان کے سامنے بیٹھے ہوئے افسر نے توڑا۔ کوائف کی فائل سے ایک کاغذ نکال کر نوجوان کو دکھاتے ہوئے اس نے کہا۔ ’’یہ تمہارا میٹرک سرٹیفکیٹ ہے۔ اس میں تمہارے والد کانام ولی داد لکھا ہوا ہے‘‘۔

’’باپ کا فرضی نام مجھے عبدﷲ یتیم خانہ والوں نے دیا ہے‘‘۔ نوجوان نے اطمینان سے کہا۔ ’’فرضی باپ کے نام سے مجھے میری شناخت قبول نہیں ہے‘‘۔

آپ کیا سمجھتے ہیں، نادرا والے اس نوجوان کو شناختی کارڈ جاری کریں گے؟ اس معاملے پر اگلے منگل کے روز بات چیت ہوگی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین