• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: خالد فرشوری

یہ غالباً 1993 کی بات ہے، میں ان دنوں روزنامہ جنگ کے شوبزنس ایڈیشن کا ایڈیٹر تھا، مرحوم معین اختر دلیپ کمار راجکمار لائیو شو کی گرینڈ ریہرسل کے لیے ممبئی جا رہے تھے، شو دبئی میں ہونا تھا اور معین بھائی اس کے میزبان تھے، میں نے ان سے کہا کہ دلیپ کمار اور راجکمار تو ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں ہیں، وہ تو آپس میں بات تک نہیں کرتے، بلکہ ایک دوسرے کو دیکھ کر راستہ بدل لیتے ہیں، آپ انہیں ایک اسٹیج پر کیسے لائیں گے؟ 

معین بھائی نے کہا کہ اسی لیے تو مجھے شو کی میزبانی کے لیے منتخب کیا گیا ہے اور میں اس مشکل کام کے لیے دلیپ صاحب اور راجکمار کی مشترکہ چوائس ہوں، معین بھائی نے اس دلچسپ ریہرسل پر مجھے ساتھ چلنے کی آفر دی اور آناً فاناً ویزا اور ٹکٹ کے مراحل طے ہو گئے۔

ان دنوں انڈین قونصل خانہ کراچی میں ہوتا تھا اور بھارتی سفارتکار ہم جیسوں کی فوری خدمت کے لیے مستعد ہوتے تھے، پھر معین اختر کا ساتھ تھا اس لیے کسی دشواری کے بغیر ہم چوتھے دن ممبئی کے رمادا ہوٹل میں چیک ان ہونے کے بعد اپنے میزبانوں اور شو کے پروڈیوسرز پون کمار جی اور ابو ملک (انو ملک کے بھائی) کو بمشکل یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ہم میں سے ایک بھی دارو نہیں پیتا، ان کو بمشکل روانہ کرنے کے بعد معین بھائی نے ایک بار پھر اپنی اور دلیپ کمار کی قربتوں کے قصے سنانا شروع کر دئیے، یہ ان قصوں سے بالکل مختلف اور نئے تھے جو ایئرپورٹ کے ویٹنگ لاونج سے لے کر دوران پرواز وہ مجھے سناتے آے تھے، ہر قصے میں وہ دلیپ کمار کو یوسف بھائی اور دلیپ کمار انہیں معین میاں کہہ کر مخاطب کرتے پائے گئے تھے اور میرا یہ شک یقین میں بدل چکا تھا کہ تھوڑی دیر بعد ’یوسف‘ ہمیں لینے کے لیے خود ہوٹل آے گا، البتہ بعدازاں جو ہوا وہ قطعی مختلف تھا، میرے لیے باعث حیرت اور معین بھائی کے لیے باعث خفت۔۔۔۔

ممبئی میں میں دلیپ کمار کی رہائش گاہ پر معین اختر اور خالد فرشوری
ممبئی میں میں دلیپ کمار کی رہائش گاہ پر معین اختر اور خالد فرشوری

معین بھائی نے دلیپ کمار کو فون کیا اور مجھے آنکھ مارتے ہوے لاؤڈ اسپیکر آن کر دیا تاکہ مجھے پتہ لگے کہ ’معین میاں‘ کی آواز سن کر ’یوسف‘ کتنا پُر جوش ہو سکتا ہے۔۔۔دو گھنٹیوں کے بعد ’یوسف‘ نے واقعی فون اٹھا لیا اور سوالیہ انداز میں گویا ہوہے،

ہیلو۔۔۔

یوسف بھائی السلام علیکم

واعلیکم السلام

یوسف بھائی معین اختر بول رہا ہوں

کون معین اختر؟

میں پاکستان سے آیا ہوں، آرٹسٹ ہوں، آپ بھول گئے کیا؟

ارے بھائی ہم کیا کیا یاد رکھیں، آپ کو ہمارا نمبر کس نے دیا، کیوں فون کیا ہے، کیا کام ہے؟

یوسف بھائی آپ شائد پہچان نہیں پا رہے ، میں معین بول رہا ہوں ، معین اختر، میں تھوڑی دیر میں فون کرتا ہوں شاید میں نے غلط وقت پر فون کر لیا ہے۔

کوئی ضرورت نہیں ہے تھوڑی دیر میں فون کرنے کی، آپ سارے زمانے سے مذاق کر سکتے ہیں، ہم نے مذاق کر لیا تو آپ تھوڑی دیر میں فون کریں گے؟ ارے آپ کو کیسے نہیں پہچانیں گے معین میاں؟ کہاں ہیں، کب پہنچے؟ میرے پاس کب آرہے ہیں؟

اس دوران معین بھائی اپنا پسینہ پونچھ چکے تھے اور معاملہ خوش اسلوبی سے رفع دفع ہونے پر فاتحانہ شان سے مجھے دیکھ رہے تھے۔

انہوں نے دلیپ کمار کو بتایا کہ میرے ساتھ میرا پاکستانی جرنلسٹ دوست بھی آیا ہے اور آپ کی باتیں سن کر بہت محظوظ ہو رہا ہے، زرا اس سے بات کریں۔

فوٹوگرافر اصغر خان اور خالد فرشوری ممبئی میں دلیپ کمار کی رہائش گاہ پر
فوٹوگرافر اصغر خان اور خالد فرشوری ممبئی میں دلیپ کمار کی رہائش گاہ پر

دلیپ صاحب سمجھ گئے کہ وضاحت ضروری ہے چنانچہ چند جملوں میں انہوں نے اپنے اور معین اختر کے دیرینہ تعلق اور بے تکلفی کو ثابت کر کے اشارہ دیا کہ جو ہوا وہ آف دی ریکارڈ تھا، (یہ اور بات ہے کہ معین اختر نے بعدازاں فرمائش کر کے مجھ سے یہ واقعہ شائع کروایا بلکہ اکثر نجی تقریبات میں وہ مجھ سے یہ واقعہ لوگوں کو سنوا کر خوش ہوا کرتے تھے۔)

دلیپ صاحب نے ہوٹل سے اپنے گھر کا فاصلہ ہی نہیں بتایا بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ڈرائیور مستعد ہے تو پندرہ منٹ میں آپ یہاں پہنچ جائیں گے۔

ممبئی کے پوش علاقے میں ہم ان کی رہائش گاہ پہنچے تو انہوں نے دروازے پر آکر معین اختر کو گلے لگایا، شو سے متعلق باتیں کم، اور پاکستان سے متعلق اپنی یادیں ذیادہ شئیر کرتے رہے۔

انہوں نے ڈرائینگ روم میں کھڑے ہوکر معین اختر کے ساتھ اپنی فلموں کے گانے بھی گائے اور آواز گونجنے کے باعث پوزیشن بھی تبدیل کرتے رہے، ہم جس روز وہاں گئے تو اگلے دن عید تھی، دلیپ صاحب کی اپنی اولاد تو نہیں تھی مگر گھر ملازمین اور ان کے اہلِ خانہ سے بھرا ہوا تھا۔

ایسا لگتا تھا جیسے میں کسی فلم کے سیٹ پر ہوں، دلیپ صاحب نے بادشاہوں کی طرح تالی بجا کر جس ملازم کو چائے کا آرڈر دینے کے لیے بلایا تھا وہ اس سے ایسے بات کر رہے تھے جیسے وہ ملازم نہیں بلکہ ان کی اولاد ہو، کچھ ہی فاصلے پر ایک دالان میں شاید گھر میں کام کرنے والی خواتین کو مہندی لگائی جارہی تھی اور دلیپ صاحب کی اہلیہ سائرہ بانو ان تمام کاموں کی نگرانی کر رہی تھیں۔

اگرچہ بعد ازاں ان کی پاکستان آمد پر بھی میں نے ان کے اعزاز میں ہونے والے ایونٹس کور کیے مگر یہ دلیپ صاحب سے میری پہلی اور آخری تفصیلی ملاقات تھی غالباً  میرے لیے وہ ایک انوکھی اور یادگار ملاقات اس لیے بھی تھی کیونکہ  میں ایک ایسے دلیپ کمار سے مل رہا تھا جو اس وقت برصغیر کا آل ٹائم فیورٹ فلم اسٹار ہی نہیں بلکہ میرے ملک کے ایک فنکار کا مداح، میرے ملک میں موجود اپنے مداحوں کا قدر دان، اور میرے ملک سے والہانہ جذباتی عقیدت رکھنے والا ہندوستانی تھا۔ 

الوداع دلیپ کمار، الوداع ’یوسف بھائی۔‘

تازہ ترین