دلیپ کمار کی اداکاری کا سحر محض فلم کے ان مناظر تک محدود نہیں تھا جن میں وہ مکالمے ادا کرتے یا ایکشن ری ایکشن کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دلیپ نے فلمی گانوں میں اداکاری کو بھی ایک نیا انداز عطا کیا۔ دلیپ نے اپنے فنی سفر کے دوران مختلف نوعیت کے کردار پرفارم کیے۔ان کرداروں کے حوالے سے فلموں میں جو نغمات پکچرائز ہوئے ان میں ان کی اداکاری اور رقص کا انداز دلکش دکھائی دیتا ہے۔ان فلمی گیتوں میں رومانس، ٹریجڈی اور موٹیویویشنل شاعری پر مبنی گیت نمایاں ہیں۔
دلیپ کے فنی سفر کے دوران بالی وڈ کی موسیقی پر محمد رفیع، طلعت محمود، کشور اور مکیش جیسے بڑے نا م ہیروز کے لیے گانے گاتے تھے۔ موسیقاروں میں نوشاد، انیل بسواس، شنکر جے کشن، سی رام چندرا، او پی نئیر،اور آر ڈی برمن نے زیادہ تر فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ نوشاد کا نام ان میں سر فہرست ہے۔ بالی وڈ کی موسیقی کے اس دور کو کلاسیکی قرار دیا جاسکتا ہے۔
اس وقت جہاں مردانہ آوازوں کو محمد رفیع اور مکیش میسر تھے وہاں لتا منگیشکر ،آشا بھوسلے اور شمشاد بیگم کی گلوکاری بھی عروج پر تھی۔ ان دہائیوں میں مجروح سلطان پوری،شکیل بدایونی، حسرت جے پوری، ساحر لدھیانوی اور آنند بخشی نے زیادہ تر فلمی گیت لکھے۔ موسیقاروں ، گلوکاروں اور شاعروں کی اجتماعی تخلیق کو جب دلیپ کمار جیسا اداکار میسر آیا تو سونے پر سہاگہ ہوگیا۔دلیپ کی فلموں میں سولو گانوں کے ساتھ ڈوئٹ بھی ملتے ہیں۔
دلیپ فلمی گیتوں میں کبھی اکیلے ہی اپنی خوشی،غم یا محبت کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں اور کبھی وہ ہیروئن کے ساتھ محو رقص یا پھر اپنی جذباتی کیفیات بیان کرتے ہوئے گانا پکچرائز کرواتے ہیں۔ اسی طرح دلیپ فلموں میں دوسرے ساتھی فنکاروں کے ساتھ گروپس کی شکل میں بھی گاتے ، ناچتے اور اپنی پرفارمنس کے نت نئے انداز دکھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ رومانوی فلمی نغمات جن میں ہیروئن کے ساتھ انکی پرفارمنس ہوتی ان میں دلیپ کی شوخی اور چنچل پن کا انداز منفرد دکھائی دیتا۔ ہدایتکار بی آر چوپڑہ کی فلم نیا دور کا موضوع انسان اور مشین تھا۔
اس فلم کے نغمات بہت مقبول ہوئے۔ محمد رفیع اور آشا بھوسلے کی آوازوں نے وہ جادو بکھیرا کہ آج بھی موسیقی کے شائقین اس کے دیوانے ہیں۔او پی نئیرنے ساحر لدھیانوی کی شاعری پر جو دھنیں ترتیب دیں وہ دل موہ لینے والی تھیں۔ اس تما م تخلیقی سرمایہ پر اداکاری کے کنگ دلیپ کمار کی اداکاری اور ان کے ساتھ مقبول اداکارہ وجنتی مالا نے جو پرفارمنس دی وہ کمال تھی۔ اس فلم کا گانا، اڑیں جب جب زلفیں تیری ، کنواریوں کا دل دھڑکے، جب ایسے چکنے چہرے تو ، میں دلیپ نے اپنی شوخ اور رومانوی اداکاری کے خوب جوہر دکھائے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ساحر نے یہ گیت دلیپ کی زلفوں کو دیکھ کر ہی لکھا تھا۔
دلیپ کی شخصیت میں ان کے بالوں کا خاص حصہ تھا۔ دلیپ کا ہیر سٹائل بہت مقبول سمجھا جاتا تھا۔ انڈیا اور پاکستان میں اس ہیئر سٹائل کو بہت کاپی کیا گیا۔ اس گانے میں گائوں میں جشن کے موقع پر دلیپ کمار اور وجنتی مالا رقص کرتے ہیں۔ دلیپ کے چہرے کے فلرٹ اور رومانوی تاثرات نے پکچرائزیشن میں جو ماحول پیدا کیا ہے وہ بہت کمال ہے۔ دلیپ کے فلمی سفر میں کافی مواقع پر انہوں نے اس نوعیت کے شوخ اور چنچل گانے پکچرائز کروائے۔ 1961کی فلم گنگا جمنا کا گانا ، نین لگ جائے تو منوا میں کسک ، میں بھی دلیپ کا رقص کا انداز اور چلبلا پن بہت ہی منفرد ہے۔ فلم آن میں بھی ایسے گانے موجود ہیں۔
آن 1952میں ریلیز ہوئی۔ فلم کی موسیقی نوشاد نے ترتیب دی جبکہ نغمات کو شکیل بدایونی نے لکھا۔ فلم میں موجود دس نغمات کو محمد رفیع، لتا منگیشکر اور شمشاد بیگم نے گایا۔ فلم کا گانا دل میں چھپا کہ پیار کا طوفان لے چلے میں دلیپ کی اداکاری کا اندازدیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ دلیپ تانگہ چلاتے ہوئے اداکارہ نادرہ کو کسی مقام پر لے کر جارہے ہیں۔ اس گیت میں ان کے ایکسپریشن اور اپنی محبت پانے کا جذبہ لیے ہوئے ایک نوجوان کی اداکاری نے اس کو اتنا مقبول کیا کہ آج بھی یہ نغمہ پیار کا استعارہ بن چکا ہے۔ دلیپ کی اداکاری نے دیوداس کے کردار کو سینما کا تاریخی کردار بنا دیا ہے۔
اس فلم کا گانا، متوا لاگی رے یہ کیسی، میں عظیم فنکار کی المیہ اداکاری کا گراف بہت بلند ہے۔ دلیپ نے اپنے چہرے کے تاثرات سے اس کرب کی تصویر کشی کی ہے جو کہ کسی بھی سچی محبت کرنے والے کے دل کی آواز ہو سکتی ہے۔ دلیپ کی اداکاری میں جو تکلیف ہے وہ مستقل اور متواتر ہے۔ انہوں نے اپنی محبت کی شدت اور اس سے وابستہ دکھ کو اس خوبی کے ساتھ فلمبند کیا ہے کہ ٹریجڈی کنگ کا خطاب ان کو ہی جچتا ہے۔ دلیپ کی المیہ اداکاری کا ایک انداز 1968کی فلم آدمی کے گانوں میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ فلم باکس آفس پر بہت زیادہ کامیاب نہیں تھی لیکن دلیپ کی اداکاری اور اس کی موسیقی کی بالی وڈ پر چھاپ آج بھی برقرار ہے۔
فلم مدھومتی کے گیت سہانا سفر اور یہ موسم حسین میں دلیپ کمار کی اداکاری نے قدرت کے حسین نظاروں کے ساتھ جو مکالمہ پیش کیا ہے وہ اپنی صنف میں ایک مثال ہے۔ دلیپ کمارحسین وادیوں اور سر سبز درختوں کے درمیان قدرتی نظاروں سے لطف اٹھا تے ہوئے جس طرح سے چہل قدمی کر رہے ہیں ان کو دیکھ کر معروف نیچر کے شاعر ولیم ورڈز ورتھ کا گمان ہوتا ہے۔ دلیپ نے اس گانے کی پکچرائزیشن کے دوران جس طرح اپنے چہرے کی مسکراہٹ اور آنکھوں کے ساتھ خوشی اور حیرت کا جو اظہار کیا ہے وہ دیکھنے والوں کو انکا دیوانہ بنا دیتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ کوئی محبوب اپنی محبوبہ کے ساتھ اٹھکیلیاں کر رہا ہے۔
دلیپ کمار نے اپنے فنی سفر کے دوران پیانو بجاتے ہوئے بھی نغمات پکچرائز کروائے۔ ان نغمات کی فلمبندی کے دوران دلیپ نے سچوئشن ، شاعری ، کمپوزیشن اور ساتھی اداکاروں کے حوالے سے اپنی پرفارمنس کو پیش کیا ہے۔ 1947میں فلم انداز میں تخلیق کیا گیا گیت ،تو کہے اگر میں گیت سناتا جائوں، میں دلیپ نے جس رومانوی انداز میں نرگس کی قربت کو دیکھتے ہوئے جو اداکاری کی ہے اور اپنے چہرے کی مسکراہٹ کے ساتھ جو رومانوی تاثر قائم کیا ہے وہ محبت کی شدت کو بہت خوبی کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ دلیپ نے مجروح سلطان پوری کی شاعری اور نوشاد کی موسیقی کے ساتھ جوانصاف کیا ہے وہ بہترین ہے اور رومانوی نغمات کی فلمبندی کے لیے ایک ٹیکسٹ بک کا درجہ رکھتا ہے۔
اسی طرح پیانو کے ساتھ ایک گیت1950کی فلم بابل میں بھی پکچرائز کیا گیا ہے ۔ شمشاد بیگم اور طلعت محمود کا گایا ہوا یہ گیت ، ملتے ہی آنکھیں دل ہوا دیوانہ کسی کا، میں منور سلطانہ کے ساتھ دلیپ کی اداکاری میں رومانوی اداکاری کا ٹھہرائو کے ساتھ ایک ایسا پہلو ملتا ہے جو بہت منفرد ہے۔ اسی طرح 1967کی فلم رام اور شیام میں بھی دلیپ نے پیانو پر ایک گانا ، آج کی رات میرے دل کی سلامی لے لے، پکچرائز کیا ہے ۔ اس گانے میں ایک محبت سے دھو کہ کھائے ہوئے شخص کی اداکاری پرفارم کرتے ہوئے جس انداز سے دلیپ نے محمد رفیع کی آواز ، شکیل بدایونی کی شاعری اور نوشاد کی موسیقی کے ساتھ انصاف کیا ہے اس نے اداکاری ایک نیا سکیل متعارف کروایا ہے۔
دلیپ پیانو کی بیٹس کے ساتھ چہرے کے جو تاثرات دیتے ہیں اورپھر منظر میں موجود وحیدہ رحمان کی جانب جن آنکھوں سے دیکھتے ہیں وہ فلم بینوں دل کو موہ لیتا ہے۔ دلیپ کے فلمی گیتوں کی اداکاری میں ایسے گانے بھی شامل ہیں جن کا مقصد انسان کو آزادی دینا اور انقلاب کی بات کرنا ہے۔ فلم نیا دور کا گانا ساتھی ہاتھ بڑھانا میں جس انداز سے دلیپ نے مزدور کے گیٹ اپ میں ساتھی فنکاروں کے ساتھ محنت اور ہمت کا پیغام دیا ہے وہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
فلم مغل اعظم کے گانوں کی پرفارمنس میں دلیپ کمار نے ایک شہزادے کا وقار اور مردانہ وجاہت کا تاثر مسلسل برقرار رکھا ہے۔ وہ فلمی نغمات جن میں صرف گلوکارہ نے ہیروئن کو آواز عطا کی ہے ان میں بھی دلیپ کی موجودگی محض مناظر کی ضروریات کے لیے نہیں ہے بلکہ دلیپ نے ان میں بھر پور انداز میں پرفارمنس دی ہے ۔