ایک ہزار چارسوسال قبل قریش مکہ کے سرداروں نے اللہ کے آخری رسول حضرت محمد ﷺ کو پیش کش کی کہ اگروہ تبلیغ سے باز آجائیں تو اُنہیں منہ مانگی دولت، اختیار اور وہ جو چاہیں گے ، دیں گے ۔ سید البشرﷺ کا جواب تھا : ’’اگروہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں پر چاند رکھ دیں تو بھی میں اپنے مقصد سے باز نہیں آئوں گا ‘‘۔میں نہیں جانتا کہ کیوں ، لیکن یہ الفاظ سن کر میں لرز جاتا ہوں ۔ ناقابل یقین ۔ پیغمبر اعظم و آخر ﷺ نے تمام انسانوں کو اصول بتادیا کہ جو بھی ترغیبات ہوں، حق بات سے پیچھے نہ ہٹیں لیکن مسلمان حکمرانوں نے اس اصول کی شاید ہی کبھی پیروی کی ہے اور اس غفلت کا اُنہیں خمیازہ بھی بھگتنا پڑا ہے ۔
آج چودہ سو سال بعد، جب ایک پاکستانی وزیر اعظم سے انٹرویو لینے والے نے پوچھا کہ کیا وہ امریکا کو فوجی اڈے دیں گے جہاں سے افغانستان ،یا جس کسی کو وہ اپنی سیکورٹی کے لئے خطرہ سمجھے، پر حملہ کرسکے، تو عمران خان نے دوٹوک جواب دیا، ’’ہر گز نہیں ۔‘‘اور پاکستان کے لئے وہ لمحہ یقیناً قابل ِ فخر تھا ۔ وزیر اعظم پاکستان نے نہ صرف ہمارا پرچم سربلند کیا بلکہ اُنہوں نے آنحضرت ﷺ کی روشن مثال کو بھی سامنے رکھا ۔ خدا ہمارے وزیر اعظم کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔
جب ہم نے افغانستان میں لڑی جانے والی دہشت گردی کی جنگ میں امریکا کو تین اڈے دیے تو ہمیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی ۔ ملک دہشت گردی کی سیاہ آندھی کی لپیٹ میں آگیا ۔ ستر سے اسیّ ہزار پاکستانیوں کا جانی نقصان ہوا، ہم الزامات کا نشانہ بنے ، اور اس تمام جوکھم کاملک کو رتی بھر فائدہ نہ ہوا۔
اس وقت امریکا افغانستان سے دم دبا کر بھاگ رہا ہے ۔ ہمارے لئے خطرہ یہ ہے کہ اگر افغانستان میں خانہ جنگی چھڑ گئی تو اس کے ہمارے لئے تباہ کن نتائج نکلیں گے ۔ افغان مہاجرین کی ایک اور کھیپ ہمارے ہاں پہنچ جائے گی ۔ یاد رہے کہ افغانستان میں سوویت یونین کی شکست اس کے انہدام پر متنج ہوئی تھی ۔ امریکا او ر نیٹو اتحادیوں کی افغانستان میں شکست کے بھی امریکا کے لئے خطرناک نتائج نکلیں گے کیوں کہ وہ کسی سیاسی تصفیے کے بغیر یہاں سے نکل بھاگے ہیں ۔ میں قدرے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ امریکا کو افغانستان میں بیس سال تک نسل کشی کرنے کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
پاکستان کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں تمام تر اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جنگ میں طاقت ور فریق دیکھ کر فوراً اُس کے ساتھ کھڑے نہیں ہوجانا چاہئے ۔ عین ممکن ہے کہ امریکا بھارت کو اپنے کرائے کے سپاہی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ہمیں زک پہنچانے کی کوشش کرے ۔ انڈیا خود بھی ہمارے خلاف جارحانہ عزائم رکھتا ہے ۔ لیکن ہمیں اپنے قابلِ اعتماد دوست، چین کو نہیں بھولنا چاہئے جو ایسا نہیں ہونے دے گا۔
مغرب کی طرف سے ایک اور احمقانہ مطالبہ آیا، اور ایسا پہلی مرتبہ نہیں تھا۔ مطالبہ یہ تھاکہ چین سے دوری اختیار کرو۔ ایک مرتبہ پھر عمران خان کا جواب، ’’ہر گز نہیں ‘‘ تھا ۔ چین ہمارا دیرینہ اور آزمودہ دوست اور قابل اعتماد اتحادی ہے ۔ درحقیقت وہ اتحادی سے کہیں بڑھ کر رہے ۔ کئی حوالوں سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں ۔ ان کے درمیان ذہنی ہی نہیں، جذباتی ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے ۔ 1980ء کی دہائی میں جب میں چینی قیادت کے بہت قریب تھا، ایک سینئر چینی راہ نما، ڈاکٹر ہانگ تاسین (Dr. Haung Tsian) ، جنہوں نے مشہور لانگ مارچ میں حصہ لیا تھا، نے پرائیویٹ لنچ پر مجھ سے کہا، ’’انڈیا اس کے بارے میں کیا سوچتاہے ؟ وہ ایک طاقت ور اور توسیع پسند ملک ہے ‘‘۔میں نے اسے بتایا کہ اگرچہ انڈیا ایک بڑا ملک ہے لیکن وہ کسی چھوٹے ملک کی طرح کمپلیکس میں مبتلا ہے ۔ وہ اپنے سائے سے بھی خائف ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک ہزار سال تک بیرونی حملہ آوروں ( زیادہ تر مسلمانوں ) کا غلام رہا ہے ۔ اب اس کمپلیکس کا کہیں نہ کہیں تو اظہار ہونا ہے ۔ ڈاکٹر تاسین نے مجھ سے اتفاق کرتے ہوئے سر ہلایا ، ’’وہ غصیلا ملک ہے یا نہیں ، لیکن اگر اُنہوں نے احتیاط نہ کی تو اُنہیں محتاط رہنا سکھا دیا جائے گا ۔ اور یہ سیکھنے میں ہی اُن کا بھلا ہے‘‘۔
لیکن ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو۔ چین ہمارے روایتی دشمن کے بارے میں وہی سوچ رکھتا ہے جو پاکستان جب مجھے چین کے مختلف علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوتا تھا تو علاقے کی کوئی یونیورسٹی لیکچر دینے کے لئے مدعو کرلیتی تھی ۔ میں وہاں ہزاروں پاکستانی طلبہ کو تعلیم حاصل کرتے دیکھتا۔ وہ زیادہ تر طب کے شعبے کے طالب علم تھے ۔ گوبی صحرا میں شن جیانگ(Xinjiang) یونیورسٹی میں تین ہزار سے زیادہ پاکستانی طلبہ زیر تعلیم تھے ۔ وہ چینی زبان سیکھ چکے تھے اور وہاں بہت مقبول تھے ۔ وہ پاکستانی کھانے پکا کر چینی دوستوں کو مدعو کرتے تھے۔ کچھ نے وہاں شادیاں بھی کرلی تھیں ۔ چینی پاکستانی طلبہ پر بہت اعتماد کرتے تھے ۔
اس سے بھی بڑھ کر،عمران خان نے انڈیا کو یاد دلایا کہ جب تک وہ پانچ اگست کے اقدام کو واپس نہیں لیں گے ، ان کے ساتھ نہ مذاکرات ہوں گے اور نہ سفارتی تعلقات بحال کیے جائیںگے ۔ کشمیر میں جبر کی دوسری لہر جاری ہے ۔ لا تعداد کشمیری شہید یا زخمی کیے جاچکے ہیں ۔ بہت سے زندگی بھر کے لئے معذور ہوگئے ہیں ۔ خواتین کی بے حرمتی کی جارہی ہے ۔ گھروں کو مسمار کیا جارہا ہے ۔ مجھے کہنے دیجیے کہ یہ محض نسل کشی نہیں ، ہالوکاسٹ ہے ۔ جتنی جلدی دنیا جاگ جائے گی اور بھارت کا ہاتھ روکے گی، اتنا ہی بھارت کے ایک ارب اور گردونواح کے ممالک کے باشندوں کے لئے اچھا ہوگا۔