میرزا ادیب — پاکستان کے نام ور ڈراما نویس، افسانہ نگار اور ناول نگار تھے۔ اصل نام دلاور حسین علی ہے۔ والد کا نام مرزا بشیر علی تھا۔ مرزا ادیب نے اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کیا۔ ابتدا میں شاعری کو ذریعہ اظہار بنایا مگر پھر نثر نگاری کرنے لگےانہوں نے کئی رسالوں کی ادارت کے فرائض سر انجام دیے جن میں سے (ادب لطیف) خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ مرزا ادیب کا ڈراما ’’شہید‘‘ پاکستان کی نصابی کتب میں بھی شامل ہے۔
مرزا ادیب ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے ان کے کئی فیچر اور ڈرامے ریڈیو پاکستان سے نشر ہوئے جن کو شہرت حاصل ہوئی۔ ان کی اعلیٰ ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔انہوں نے بے شمار افسانے، ڈرامے، سفرنامے، تنقید، تراجم، تالیفات کرنے کے علاوہ بچوں کے لیے کہانیاں بھی تحریر کیں۔ ذیل میں ان کی لکھی ہوئی ایک سبق آموزکہانی پیش کی جارہی ہے۔
ترکستان کے ایک شہر کا نام ہے ’’فاراب‘‘! بہت مدت گزری، اس شہر کے ایک محلے میں ایک بہت ہی غریب لڑکا رہتا تھا جسے علم حاصل کرنے کا بے حد شوق تھا۔ دن کو وہ اپنے استاد کے ہاں جاکر سبق پڑھتا اور جب رات آتی، وہ دن کا پڑھا ہوا سبق یاد کرتا اور اس وقت تک نہیں سوتا تھا جب تک یہ سبق پوری طرح یاد نہیں ہوجاتا۔اس کی چارپائی کے سرہانے مٹی کا ایک دیا جلتا رہتا تھا، اسی دیئے کی روشنی میں وہ رات کے دو، دو بجے تک پوری پوری کتاب پڑھ لیتا اور بعض اوقات ساری رات ہی پڑھنے میں گزر جاتی۔
ایک رات کا ذکر ہے وہ اپنی چارپائی پر بیٹھا پوری توجہ اور انہماک سے کسی کتاب کا مطالعہ کررہا تھا کہ دیئے کی روشنی مدھم ہونے لگی۔ اس نے بتی کو اونچا کیا، روشنی ہوئی تو ضرور مگر بہت جلد ختم ہوگئی۔ اب جو اس نے دیئے پر نظر ڈالی تویہ دیکھ کر اسے بڑا افسوس ہوا کہ تیل تو دیئے میں ہے ہی نہیں، روشنی اگر ہو تو کیوں کر! اب کیا کروں؟ اس نے اپنے دل میں سوچا۔ رات آدھی کے قریب گزر چکی تھی، شہر کی دکانیں بند ہوچکی تھیں اور اگر وہ کھلی بھی ہوتیں تو لڑکے کو کچھ فائدہ نہ ہوتا کیونکہ اس کے پاس تیل خریدنے کیلئے بھی پیسے نہیں تھے۔ پیسوں کے بغیر کون دکاندار تیل دے سکتا تھا۔
اس حالت میں بہتر یہی تھا کہ وہ کتاب ایک طرف رکھ کر سو جائے مگر ابھی تو اسے پورے دو گھنٹے اور پڑھنا تھا، وہ یہ دو گھنٹے کس طرح ضائع کرسکتا تھا اور پھر دوسرے دن بھی اس کے پاس کہاں سے پیسے آتے۔ روٹی تو وہ ایک مسجد میں جاکر کھا لیتا اور محلے کے ایک بچے کو پڑھا کر جو رقم ملتی تھی، اس سے وہ اپنے لئے معمولی کپڑے اور تیل خرید لیتا تھا لیکن اسے حال ہی میں جتنے پیسے ملے تھے، وہ خرچ کرچکا تھا۔
دیئے کے اس طرح بجھ جانے سے وہ بہت پریشان تھا۔ وہ اپنی کوٹھری سے نکل کر دروازے پر آبیٹھا۔ رات کا اندھیرا ہر جگہ پھیلا ہوا تھا، کہیں کوئی چراغ جلتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا تھا، سب لوگ آرام کررہے تھے۔ اتنے میں اس کی نظر روشنی کی ایک ننھی سی لکیر پر پڑی جو شاید دور کسی دیوار پر دکھائی دے رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہی اس کے دل میں خواہش ہوئی کہ کاش! یہ روشنی اس کے گھر میں ہوتی۔
روشنی دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھا اور یہ معلوم کرنے کیلئے کہ یہ کہاں سے آرہی ہے، ادھر قدم اٹھانے لگا جدھر سے روشنی آرہی تھی۔ اپنی کتاب وہ ساتھ ہی لے آیا تھا تاکہ موقع ملے تو اسی روشنی میں کتاب کا باقی حصہ پڑھ ڈالے اور پھر واپس آجائے۔ کچھ دور جاکر اس نے دیکھا کہ وہ روشنی ایک قندیل میں سے نکل رہی ہے جو محلے کے چوکیدار کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے چوکیدار سے بڑے ادب کے ساتھ کہا۔ جناب! اگر آپ اجازت دیں تو میں قندیل کی روشنی میں کتاب پڑھ لوں؟ چوکیدار ایک نیک آدمی تھا، وہ سمجھ گیا کہ یہ غریب طالب علم ہے جس کے پاس تیل خریدنے کیلئے پیسے نہیں ہیں۔ وہ بولا۔ ہاں بیٹا! پڑھ لے۔ میں تھوڑی دیر یہاں بیٹھوں گا، یہاں بیٹھ جا! لڑکا کتاب پڑھنے لگا۔ اب مشکل یہ تھی کہ چوکیدار ایک ہی جگہ زیادہ دیر تک نہیں بیٹھ سکتا تھا اس لئے کہنے لگا۔ بیٹا! اب تم گھر جائو اور سو جائو، مجھے آگے جانا ہے۔
لڑکا بولا۔ آپ ضرور آگے جایئے، جہاں جی چاہے، میں آپ کے پیچھے پیچھے چلوں گا۔ چوکیدار قندیل اٹھا کر آگے آگے چلنے لگا اور لڑکا پیچھے پیچھے! اس طرح مطالعہ کرنے میں اسے بڑی دقت پیش آرہی تھی لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔ وہ چار بجے تک پڑھتا رہا اور پھر چوکیدار کا شکریہ ادا کرکے گھر چلا گیا۔ دوسری رات بھی یہی واقعہ ہوا۔ تیسری رات لڑکا آیا تو چوکیدار کہنے لگا۔ بیٹا! لو یہ قندیل اپنے گھر لے جائو، میں نئی قندیل لے آیا ہوں۔ لڑکے نے یہ الفاظ سنے تو اسے اتنی خوشی ہوئی جیسے بہت بڑا خزانہ مل گیا ہو۔
وہ قندیل اپنی کوٹھری میں لے آیا اور اطمینان کے ساتھ اپنا کام کرنے لگا۔ چند روز کے بعد اسے پیسے ملے تو وہ بازار سے تیل خرید لایا اور اسے دیئے میں ڈال دیا۔ کئی دن گزر گئے اور پھر کئی سال…! لڑکا جوان ہوگیا۔ جیسے جیسے اس کی عمر بڑھتی چلی جاتی تھی، اس کا علم بھی بڑھتا جاتا اور پھر ایک ایسا آیا کہ وہ اپنے وقت کا سب سے بڑا استاد بن گیا۔ بڑے بڑے عالم فاضل لوگ دور دور سے اس کے پاس آتے اور اس سے علم حاصل کرتے تھے۔ وہ علم کا ایک ایسا دریا بن گیا جس سے علم کے پیاسے ،اپنی پیاس بجھاتے رہتے تھے۔ جانتے ہو بچو…! یہ لڑکا کون تھا؟ یہ تھا ابو نصر فارابی!
فارس (ایران) کے اس عظیم مسلمان فلسفی اور سائنس داں کی وفات کو کئی سوبرس گزر چکے ہیں مگر اس کی عزت و عظمت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اس کا نام سب بڑے احترام سے لیتے ہیں اور لیتے رہیں گے۔ جس کے اپنے دیئے کی روشنی ختم ہوگئی لیکن علم کا جو دیا اس نے جلایا، اس کی روشنی کبھی ختم نہیں ہوگی۔