• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے پہلی بار پاکستان کے ڈاک ٹکٹ پر پاکستانی حضرات کی تصویر دیکھی تو خاصی حیرانی سی ہوئی۔ یہ سب لوگ پاکستان کی پہچان تھے اور ہیں بھی۔ مجھے کرید ہوئی کہ یہ فیصلہ کہاں ہوا اور کیوں ہوا؟ میں اس زمانہ میں پاکستان سے باہر تھا، جب پاکستان سے ایک مکتوب آیا اور اس کے ٹکٹ پر نواب بہاولپور کی تصویر تھی۔ مجھ سے ٹرانٹو لائبریری بورڈ کی خاتون افسر نے پوچھا یہ کوئی استاد یا سائنس دان ہے؟ میں ذرا دیر کو مسکرایا پھر میں نے اسے بتایاکہ میں اِس لئے خوش ہوا تھا کہ تمہارا سوال اچھا ہے، وہ اس پر ہی خوش ہو گئی۔ میں نے بتایا کہ یہ صاحب گھر پر ایک خود مختار ریاست کے لارڈ تھے، اس نے فوراً کہا، OH KINGمیں نے جواباً کہا، ہاں کہہ سکتی ہو،پھر بتایا کہ جب انگریز نے ہندوستان کی تقسیم کی تو نواب بہاولپور نے اپنی ریاست کو پاکستان کا حصہ بنا دیا اور پاکستان کی مالی مدد بھی کی۔ میں سوچ رہا تھا کہ ایسا کون سا صاحبِ ذوق و شوق پاکستانی افسر شاہی میں زندہ اور سانس لے رہا ہے اور کچھ کرتا نظر آ رہا ہے، پاکستان میں دوستوں سے رابطہ کیا، مجھے ایک زمانہ میں ڈاک کے ٹکٹ جمع کرنے کا شوق تھا اور جب بھی پاکستان سے ڈاک کے خاص ٹکٹ چھپتے، میں ان کو خرید لیتا۔ پھر ایک دن ابدال بیلا کی کتاب ’’آپ بیتی‘‘ پڑھ رہا تھا تو معلوم ہوا کہ ٹکٹوں پر پاکستانی مشہور لوگوں کی تصاویر دینے کا کارنامہ میرے راوین دوست اور مہربان جاوید اقبال اعوان کا ہے۔ انہوں نے ڈاک کے ٹکٹوں پر نواب آف بہاولپور، ناصر کاظمی جناب سید ضمیر جعفری کی تصاویر کو اجاگر کیا، ایک زمانہ میں جاوید اقبال اعوان، ریاست بہاولپور کے شہر بہاولپور کے ڈپٹی کمشنر تھے اور وہاں سائیکل رکشہ چلتے تھے، آپ کی توجہ سے مزدور کی مشقت کم ہوئی اور سرکار نے پٹرول سے چلنے والے کم خرچ رکشوں کا انتظام کیا اور عوام کو آسانی فراہم کی۔ چند دن پہلے ہی ان کا فون آیا وہ مجھے سید سردار علی کے لیکچر کے لئے مدعو کر رہے تھے۔ میں نے جاوید سے پوچھا کہ موضوع کیا ہوگا؟ انہوں نے بتایا سید سردار علی کا موضوع ہے کہ دنیا میں ترقی کیسے ہوئی۔ میں نے دوبارہ پوچھا اور کون کون مدعو ہے؟ جاوید بتانے لگے ساجد علی صدارت کریں گے، مجھے اور خوشی ہوئی، جناب ساجد علی ایک زمانہ میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کے ہیڈ تھے۔ گورنمنٹ کالج میں کالج گزٹ کے ایڈیٹر تھے اور میں رپورٹر تھا اور ان کی سفارش سے ڈاکٹر اجمل گزٹ کے پنجاب ایڈیشن ’’راوی وہاں چلاں‘‘ کی اجازت دینے پر تیار ہوئے اور مرزا نعیم نے خوب کام کیا اور مشاق صوفی کی ترقی پسند نظموں تک رسائی بھی ہوئی ۔ جاوید نے بتایا کہ سید سردار علی کے چار لیکچر ان نیٹ تھے، ایک لیکچر یعقوب اظہار صاحب کے ہاں ہوا تھا اور دوسرا یہ لیکچر پاک چائنا جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے روح رواں جناب صلاح الدین حنیف کے بورڈ روم میں ہو گا ۔میں نے جاوید سے کہا کہ کچھ ذوقِ لطافت بھی ہو گا وہ فوراً بولا ہاں کیوں نہیں، بہترین سوچ کے ساتھ پرلطف خوراک بھی ہو گی۔

اس دفعہ گرمی کچھ زیادہ ہی محسوس ہو رہی ہے میں حسبِ وعدہ ایل ڈی اے پلازہ پہنچا اور مقررہ مقام کی تلاش شروع کی، ایک زمانہ میں جب پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف تھے تو ایل ڈی اے پلازہ کے ریکارڈ روم میں آگ لگ گئی تھی، کتنی تاریخ کی یادداشتوں کو مٹا دیا گیا اور کوئی پوچھ پڑتال بھی نہ ہوئی ۔ایل ڈی اے پلازہ ابھی اُجلا نہیں ہوا تھا، کسی زمانہ میں ہمارے دوست سپریم کورٹ کے جج جسٹس بندیال کا یہاں دفتر ہوا کرتا تھا، وہ بھی صاحبِ ذوق ہیں اور اچھی صحبت کا وجدان رکھتے ہیں، ایک گارڈ کی رہنمائی سے صلاح الدین حنیف کا دفتر مل گیا، وہاں رانا امیر صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔اتنے میں معلوم ہوا کہ آنے والے سب حضرات کو حاضری بھی لگوانی ہے اور حاضری لگانے کا طریقہ یہ ہے کہ استقبالیہ پر جاکر اپنا نام اور رابطہ لکھنا ہے ۔میں بھی حاضر ہوا اور جملہ معلومات کو مکمل صحت کے ساتھ درج کیا، وہاں پر کچھ کتب بھی رکھی ہوئی تھیں، انگریزی اور چینی بھاشا سیکھنے کی بھی کتاب تھی۔

استقبالیہ پر کھڑی خاتون سے پوچھا کہ اس کی کیا قیمت ہے؟ وہ مسکرائی اور دھیرے سے بولی مفت ہے۔اس کی مسکراہٹ اور مفت دونوں نے سرشار کیا اور شکریہ کے ساتھ کتاب کو قابو کیا تو دیکھا سب لوگ بورڈ روم کی طرف رواں دواںتھے، ایک صاحب بتانے لگے کہ بس چند منٹوں کے بعد سید سردار علی صاحب آنے والے ہیں، یہ مہربان جناب نعیم بلال تھے جن کی فہم وفراست نے خاصا متاثر بھی کیا ایک طرح سے یہ سردار صاحب کے چیف آف سٹاف تھے ۔ ابھی لیکچر کے شروع ہونے میں وقت تھا تو میں نے چائنا کی زبان جاننے کی کوشش کی۔ کچھ بھی پلے نہ پڑا اور وہاں ہی کسی نے بتایا کہ اس دفتر کے لوگ چائنا کی زبان سکھانے کا کورس بھی کرواتے ہیں۔ ایک زمانہ میں زیادہ وقت نہیں گزرا جب سی پیک کے منصوبے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں رواں تھے تو اکثر تعلیمی اداروں میں چائنا کی زبان کے کورس شروع کروائے گئے تھےمگر کیا ہوا کہ ان کورسوں کو زیادہ توجہ نہ مل سکی۔

جاوید اعوان کی یادداشت کمال کی ہے انہوں نے چند منٹوں میں پرانے نظاموں کی تاریخ بیان کر دی۔ سب حیران اور خوش تھے کہ جاوید کا بیانیہ اتنا آسان اور قابل فہم تھا کہ پوچھنا پڑا کہ آپ نوٹ کیسے تیار کرتے ہیں ۔جاوید کا جواب بڑا مختصر اور مدلل تھا ۔ساری عمر نوٹس بنانے میں گزار دی ہے پھر جناب سید سردار علی نے آغاز گفتگو کیا ۔ماضی کی ہزار سالہ تاریخ کا بیان ، نظام کے قیام کی تاریخ اور پھر معاشرے میں ترقی کی کہانی اور ملکوں کے درمیان مقابلے کی فضا اور تعلیم کی اہمیت اور حیثیت سے معاشرتی علوم کا فروغ۔لیکچر خوب تھا اور پھر نماز کے وقفہ میں اچھی خوراک کی ترسیل بھی ہوئیجنرل انیس باجوہ نےبھی معاشرتی ترقی اور توجہ پر بات کی۔ جناب جوہرجو ایک تعلیمی ادارہ کے ڈائریکٹر ہیں ،انہوں نے اصلاحی ثقافت کے تناظر میں قوموں کی ترقی پر روشنی ڈالی، بھرپور معلومات سے سامعین کو محفوظ کیا گیا اور مجھے لگا کہ ہمارے ہاں بھی نظام کو بدلنا لازمی ہو گیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کون اس کے لئے سامنے آتا ہے؟

تازہ ترین