• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تمباکو نوشی کی معلومہ تاریخ کوئی سات ہزار سال پرانی ہے جب لوگ تاریخی تغیر کے ساتھ ساتھ مختلف طریقوں سے تمباکو نوشی کرتے رہے ہیں، حالیہ تاریخ میں شاید یہ 1930کی بات ہے جب اس کے طبی نقصانات کے ضمن میں ٹھوس ثبوت ماہرین طب کے سامنے آنا شروع ہوئے لیکن چونکہ تمباکو اور سگریٹ ساز کمپنیاں بہت بڑی رقوم ٹیکس کی صورت حکومتوں کو دیتی تھیں، اس لئے حکومتوں نے بھی انسانی زندگی کیلئے اس بڑے خطرے کی طرف سے آنکھیں بند رکھیں۔ 1930-40کے درمیان جرمنی میں پہلی دفعہ ’’اینٹی ٹوبیکو موومنٹ‘‘ چلائی گئی۔ ’’عالمی ادارۂ صحت‘‘ نے جنیوا سوئٹزر لینڈ میں ہونے والے اجلاس میں، جو 21مئی 2003کو منعقد ہوا، میں یہ فیصلہ کیا کہ سگریٹ کے ہر پیکٹ پر واضح لکھا جائے گا کہ ’’سگریٹ صحت کیلئے خطرہ ہے‘‘ چنانچہ 27فروری 2005کو دنیا بھر کیلئے قانون بن گیا کہ سگریٹ ساز کمپنیز پیکٹ پر یہ وارننگ لازمی درج کریں لیکن اس کے باوجود سگریٹ نوشوں کی تعداد میں کمی نہیں آئی حالانکہ دنیا بھر کے 168ممالک نے اس قانون پر دستخط کئے تھے، پاکستان بھی 2005میں WHOکے اِس تمباکو کنٹرول کرنے کے پروگرام کا رکن بنا لیکن پاکستان میں حکومتی سطح پر خاطر خواہ قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے آج صورتحال یوں ہے کہ یہاں 46فیصد مرد اور 6فیصد خواتین تمباکو نوشی کرتی ہیں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان میں سالانہ 65ارب سگریٹ نوش کئے جاتے ہیں جن پر 250ارب روپے سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ یہاں ایک لاکھ افراد سالانہ سگریٹ نوشی سے مر جاتے ہیں اور 12لاکھ افراد سالانہ اس کی وجہ سے ہونیوالی مختلف بیماریوں سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، پاکستان دنیا کا چوتھا ملک ہے جہاں سگریٹ نوشوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔

دنیا بھر میں 100کروڑ کے قریب سگریٹ نوش ہیں اور 60لاکھ افراد اس عادت کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے موت کا شکار ہوتے ہیں، برطانیہ میں سالانہ ایک لاکھ افراد سگریٹ نوشی کے باعث مر جاتے ہیں لیکن گزشتہ 17سال سے برطانیہ میں اسموکنگ سے متعلق قوانین سخت تر بنائے گئے ہیں اسی وجہ سے آج برطانیہ میں 17فیصد سے بھی کم افراد سگریٹ نوشی کرتے ہیں جبکہ گزشتہ 14سال میں 70لاکھ افراد سگریٹ نوشی ترک کر چکے ہیں یعنی اگر دس سال پہلے برطانیہ میں ایک کروڑ سگریٹ نوش تھے تو آج یہ کم ہو کر 80لاکھ رہ چکے ہیں ان میں سے بھی لاکھوں افراد نے منہ سے دھواں نکالنے کی عادت کیلئے الیکٹرانک سگریٹ اور متبادل ذرائع ڈھونڈ لئے ہیں اس کے علاوہ بھی حکومت نے بہت سے دیگر طریقہ کار وضع کئے ہیں جن سے سگریٹ نوشی کی عادت ترک کرنے میں مدد ملتی ہے۔ برطانیہ میں یکم جولائی 2007 میں ایک قانون بنا اور شراب خانوں، کلبوں، جہازوں، ریل گاڑیوں، بسوں، ریستورانوں عرضیکہ ہر قسم کی عوامی جگہوں پر سگریٹ نوشی نہ کرنے کے علاوہ ٹیلی ویژن پر آنے والے سگریٹ کے اشتہارات پر پابندی عائد کر دی گئی، دکانداروں کو پابند کیا گیا کہ وہ سگریٹ کو ڈسپلے نہیں کر سکتے اسے چھپا کر رکھا جائےگا ، سگریٹ خریدنے کی عمر 18سال سے اوپر ہونی چاہئے ، ملک بھر میں کام کرنے کی جگہوں، دفاتر، فیکٹریوں اور ہر وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہوں،وہاں سگریٹ نوشی منع ہے ۔پبز یعنی شراب خانوں میں سگریٹ نوشی کی پابندی جو شروع میں متنازع بھی رہی کیونکہ ملکی معیشت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے لیکن اس پابندی نے برطانیہ کے عوام کی صحت کے حوالے سے مثبت نتائج بھی دیے اور آہستہ آہستہ عوام نے اس پابندی کو قبول بھی کر لیا، لہٰذا 14سال قبل بنایا گیا یہ قانون لوگوں کو موت کے منہ سے واپس لانے میں کامیاب ہوا اور 20لاکھ سے زیادہ لوگ اس عادت سے منہ موڑ چکے ہیں۔

برطانیہ میں گزشتہ 14سال کے دوران 10 ہزار پب بند ہو چکے ہیں ۔غالب خیال ہے کہ پبوں میں لوگ شراب اور سگریٹ نوشی کیلئے آتے تھے چنانچہ پابندی کی وجہ سے پب مالکان کی آمدن متاثر ہوئی، کاروبار بند کرنا پڑا اور پھر حکومت نے شراب پر بھی بھاری ٹیکس عائد کر دیے۔برطانیہ میں مربوط بنیادوں پر چلائی جانے والی ’’اینٹی ٹوبیکو موومنٹ‘‘ نے لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے، اسی وجہ سے سگریٹ نوشی ترک کرنے ’’این ایچ ایس‘‘ سے رابطہ کرنے والے افراد کی تعداد میں بھی 20فیصد اضافہ ہوا ہے ۔حکومت نے سگریٹ نوشی کی روک تھام کیلئے ایک اور بڑا احسن قدم اٹھایا ہے کہ سگریٹ بیچنے والے دکاندار کوئی اشتہار نہیں لگائیں گے، اگر انہیں لگے کہ خریدار انڈر ایج ہے تو اس کا شناختی کارڈ طلب کیا جائے گا۔سگریٹ بنانے والی تمام کمپنیز کوپابند کر دیا گیا ہے کہ سگریٹ کا چھوٹا پیکٹ یعنی 10سگریٹ والا پیکٹ بند کر دیں تاکہ 20سگریٹ والا پیکٹ، گیارہ یا بارہ پائونڈ کا ملتا ہے، وہ خریدنا مشکل ہو جائے گا اس کے ساتھ ہی مینتھول سگریٹ بالکل ختم کر دیا گیا ہے اور آئندہ یہ قانون بھی لاگو کیا جائے گا کہ 20کی بجائے 30سگریٹ والا پیکٹ ہی دستیاب ہو جس کی قیمت خاصی زیادہ ہو گی تاکہ اس قدر مہنگا سگریٹ کم سے کم لوگ خریدیں۔

ذکر کئے گئے یہ اقدامات جو برطانیہ جیسے ایک ترقی یافتہ ملک نے دہائیوں کے سفر کے بعد اپنے شہریوں کو سگریٹ کے زہر سے بچانے کیلئے بتدریج اٹھائے ہیں جس کے حوصلہ افزا نتائج یوںآئے کہ برطانوی محکمہ صحت کی ایک تازہ رپورٹ میںبتایا گیا کہ لاکھوں افراد کی سگریٹ نوشی سے توبہ کےساتھ ساتھ بارز اور شراب خانوں میں کام کرنے والے ورکرز میں سانس کی بیماریوں میں بھی خاطر خواہ کمی آئی ہے، مرکزی حکومت نے اس قانون پر عملدرآمد کروانے کی ذمہ داری مقامی حکومت یعنی کونسلز کو دی جنہوں نے حوصلہ افزا نتائج دیے۔ کیا پاکستان کی مرکزی و صوبائی حکومتیں بھی اپنے شہریوں کو سگریٹ نوشی سے ہونے والی اموات سے بچانے کیلئے ایسے ہی اقدامات اٹھائیں گی جس طرح برطانیہ کی مثال ان کےسامنے ہے اور وہ قوانین واقدام بھی جنہیں بروئے کار لاکر برطانیہ 14سال میں اپنے 20لاکھ سے زیادہ شہریوں کو متوقع موت کے منہ سے واپس لے آیا۔

تازہ ترین