صوبائی دارالحکومت لاہور کا ڈپٹی کمشنر ہمیشہ پنجاب کے دیگر اضلاع کے انتظامی سربراہان ( ڈپٹی کمشنروں) کی نسبت زیادہ سوچ سمجھ کر تعینات کیا جاتا ہے ۔ ایک کروڑ 50لاکھ سے زیادہ آبادی کے اس شہر میں حکومت کی طرف سے دی جانیوالی سروس ڈلیوری دیگر ضلعوں کیلئے مشعل راہ ہوتی ہے۔ لاہور کے انتظامی سربراہ کے لیے چیلنجز بھی بہت زیادہ ہیں اور کرپشن کے ضابطے بھی دیگر اضلاع کی نسبت قدرے مختلف ہیں ۔ شاید ہی انتظامیہ کا کوئی ایسا افسر ہو جو دامن بچا کر یہاں سے نکل پائے۔ موجودہ ڈپٹی کمشنر لاہور مدثر ریاض ملک کی طرف سے کرپشن کے خاتمے کیلئے اسسٹنٹ کمشنروں، سب رجسٹراروں اور ریونیو سمیت ضلعی انتظامیہ کے دیگر افسروں سے کرپشن نہ کرنے کا ’’حلف‘‘ لینے کی خبر منظر عام پر آئی جس کی مندرجات کے مطابق تصدیق نہیں ہو سکی لیکن ایسی منظر کشی ضرور کی گئی کہ سننے اور پڑھنے والا شاید اس پر یقین کر ہی لے۔بادشاہی مسجد میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی کیلئے ڈپٹی کمشنر کی طرف سےلاہور کے تمام اسسٹنٹ کمشنروں اور دیگر ذمہ داروں کو بلایا گیا۔ ڈپٹی کمشنر نے ماتحت افسروں سے کہا کہ اس سے قبل آپ نے جو بھی کیا‘ میں اس کا آپ سے حساب نہیں مانگتا لیکن وعدہ کریں کہ آئندہ میرا کوئی ماتحت افسر کرپشن نہ کرے اور سب ایمانداری کے ساتھ ملک کی ترقی کیلئے بھرپور کام کریں ۔رزقِ حلال میں برکت ہے اگر میں نے بطور ڈپٹی کمشنر آپ میں سے کسی سے بھی غلط کام کرنے کیلئےکہا یا کوئی مالی مفاد حاصل کیا ہے تو مجھے بلاجھجک بتائیں۔ ہمیں حکومت کے ساتھ مل کر ملک کو آگے لیکر جانا ہے اور اس کیلئے سب سے پہلے ہمیں اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہو گا وغیرہ وغیرہ۔ اسسٹنٹ کمشنروں سمیت دیگر افسروں نے عہد کیا کہ وہ کرپشن نہیں کریں گے اور نہ کرنے دیں گے۔میری اطلاعات کے مطابق حلف اٹھانے کا شاید نہیں کہا گیا کیونکہ جن کو بادشاہی مسجد میں ڈپٹی کمشنر کی باتیں بری لگیں وہی کہتے نظر آئے کہ دیکھیں اگرچہ حلف نہیں بھی اٹھوایا گیا لیکن نیت تو یہی تھی‘ جس کے لئے ہمیں بلوایا گیا۔میری معلومات کے مطابق آئین میں افسروں کیلئے کوئی ایسا حلف نہیں ہے یہ سمجھا جاتا ہے کہ افسر کرپٹ نہیں ہیں اس لئے حلف لینا غیر ضروری تصور ہوتا ہے ۔اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ لاہور سمیت دیگر شہروں میں کروڑوں نہیں اربوں روپے کی کرپشن ہوتی ہے ۔ لاہور کے مختلف اداروں اور خاص طور پر میونسپل کارپوریشن، ضلعی دفاتر اور اسسٹنٹ کمشنروں کے دفاتر میں تو باقاعدہ مافیاز ہیں۔ لاہور کے ایک اسسٹنٹ کمشنر تو کئی سال سے یہاں تعینات ہیں ۔ان کا تبادلہ بس ایک سے دوسری سب ڈویژن میںکر دیا جاتا ہے۔کس کی جرأت ہے کہ ایک انتہائی طاقتور سیاسی شخصیت کے قریبی عزیز کا تبادلہ لاہور سے باہر کرسکے۔ ڈپٹی کمشنر لاہور نے تو شاید رہنمائی، مشاورت یا ایمانداری کی مثال قائم کرنے کی رائے دی ہے ۔یہ واقعی حلف لے بھی لیں تو ایسے افسر جن کی اتنی بڑی بڑی سفارشیں ہیں‘ ان کا کیا بگاڑ سکتے ہیں ۔اخلاقی اور مالی کرپشن کرنے والے اور سفارشوں کے بل بوتے پر نوکریاں کرنیوالے افسروں اور ماتحتوں کا کون سی حکومت کچھ بگاڑ سکی ہے؟ افسروں سے حلف لینا رولز اور ریگولیشنز کا حصہ نہیں۔ ڈپٹی کمشنر لاہور اپنے ماتحتوں کی جانچ کرتے وقت ان کی Tenure Policy، پرفارمنس انڈکس اور ویلیو اسیسمنٹ کرائیٹریا پر فوکس کریں۔ پنجاب سول سرونٹس ایکٹ 1974ء میں احتساب کا پورا نظام موجود ہے صرف اس پر عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے ۔ افسر کسی ٹریڈ یونین کا حصہ یا ممبر تونہیں ہوتے کہ وہ حلف دیں گے۔رولز اور ریگولیشنز موجود ہیں جن کے تحت سخت کارروائی کی جا سکتی ہے لیکن یہ جذبے اور اخلاص پر منحصر ہوتا ہے‘ پنجاب میں وفاقی حکومت کے ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ رولز کو ا بھی تک پنجاب میں نہیں اپنایا گیا پرفارمنس اسیسمنٹ میکنزم اور Quantification Formulaاپنا کر ہی افسروں کا احتساب ممکن ہے جو وفاق اور خاص طور پر پنجاب میں تو ہوتا نہ دکھائی دیا اور نہ ہی آگے چل کر نظر آ رہا ہے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے ایک اور پالیسی سامنے آئی ہے جسکے تحت افسروں کی کارکردگی جانچنے کیلئے پرائم منسٹر ڈلیوری یونٹ (PMDU)کے احکامات پر عملدرآمد کرنیوالے افسر ہی اچھی کارکردگی کے مستحق قرار پائیں گے ۔سول سرونٹس رولز 2019ء کے مطابق گریڈ 18سے 21تک کی ترقیوں کیلئے دیئے جانے والے نمبروں میں بھی ردوبدل کر دیاگیا ہے۔ پہلے ترقی کیلئے 100نمبروں میں سے 15نمبر سنٹرل سلیکشن بورڈ کی صوابدید پر تھے جنہیں بڑھا کر 30کر دیا گیا ہے ۔ اسی طرح اے سی کے 50نمبروں کو کم کرکے 40اور پروفیشنل کورسز 35نمبروں کو کم کر کے 30کر دیا گیا ہے ۔ افسروں میں سے گریڈ18 والوں کو ترقی کیلئے 60،گریڈ 19کو 65، گریڈ 20والوں کو 70اور گریڈ 21میں ترقی کیلئے 75نمبر لینا ضروری ہونگے۔سلیکشن بورڈ کے 70سے 80فیصد نمبروں کے بغیر ترقی نہیں ہو گی۔یہاں پر سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ سنٹرل سلیکشن بورڈ کے اگر 30نمبر ہیں اور اگر ترقی پانے والے افسر نے بورڈ میں شامل کسی افسر کے ساتھ کبھی نوکری نہیں کی اور اس کا رابطہ بھی نہیں رہا تو کیا اس کے ترقی حاصل کرنے میں مشکلات تو درپیش نہیں ہو نگی ؟ اسی طرح سنٹرل سلیکشن بورڈ میں اراکین قومی اسمبلی بھی شامل ہوتے ہیں اور وہ کسی ذاتی بنیاد پر کسی افسر کی ترقی کے حوالے سے کوئی اعتراض اٹھادیتے ہیں تو کیا اسے ترقی مل پائے گی ؟ وفاقی حکومت پالیسیاں تو دھڑا دھڑ بناتی جا رہی ہے لیکن اہم ترین چیز تو ان پر عملدرآمد ہے جس کے تاحال آثار دیکھنے میں نہیں آ رہے ۔وزیر اعظم نے پنجاب میں وی وی آئی پیز اور سابق آئی جیز سمیت دیگر اعلیٰ افسروں کی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں اورگاڑیوں کی تفصیلات مانگی تھیں لیکن یہ معاملہ بھی وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کےساتھManage کر لیا گیا اور کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی۔