کوئی سیاسی رہنما بھی کھل کر یہ بات نہیں کر رہا کہ ہماری افغان پالیسی کے پہلے کس قدر خطرناک نتائج برآمد ہوئے اور آئندہ کیا تباہی آ سکتی ہے ۔ یہ امر سیاسی قیادت کے تشویش ناک فقدان کی نشاندہی کرتا ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ سیاسی قیادت اور اہل رائے حلقے کو کھل کر بات کرنی چاہئے کیونکہ پاکستان مزید تباہی کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کا عمل شروع ہوتے ہی طالبان نے افغانستان کے علاقوں پر قبضہ کرنے کی کارروائیاں تیز کر دی ہیں ۔ میں اسے بھی عالمی طاقتوں کے ’’ اسکرپٹ ‘‘ کے مطابق سمجھتا ہوں تاہم آج محترمہ بے نظیر بھٹو جیسے سیاسی رہنمائوں کی ضرورت ہے ، جو کھل کر یہ کہہ سکیں کہ افغانستان میں پاکستان کی حامی طالبان حکومت پاکستان کی شمالی سرحدوں کو ’’ تزویراتی گہرائی ‘‘ ( Strategic Depth ) نہیں دے گی بلکہ طالبان پاکستان کے لیے ’’ تزویراتی خطرہ‘‘ ( Strategic Threat ) بن جائیں گے ۔ اس حقیقت کو بہت گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ انتہائی افسوس کے ساتھ یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ پاکستان کی افغان پالیسی پر پارلیمانی لیڈرز کو وزارت خارجہ اور پاک فوج کی طرف سے جو بریفنگ دی گئی ، اس میں کسی نے محترمہ بے نظیر بھٹو والی بات ایک بار بھی نہیں کی ، جو وہ بار بار ہر فورم پر کرتی تھیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ سے باہر کی مذہبی سیاسی جماعتوں کے رہنما یہ بیانات دے رہے ہیں کہ اگر افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہو جاتی ہے تو دنیا افغانستان کے امن کے لیے اسے تسلیم کرے ۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے بیانات کیا ہماری ہیئت مقتدرہ کا پالیسی موقف بھی ہیں ؟ افغانستان کو مزید تباہی و بربادی سے بچانا ہے اور وہاں حقیقی امن قائم کرنا ہے تو ایسی وسیع البنیاد حکومت تشکیل دینا ہو گی ، جس کا خاکہ 1996 ء کے اس معاہدے میں موجود تھا ، جس پر دستخط نہیں ہو سکے ۔ صرف طالبان کے تسلط سے امن قائم نہیں ہو گا ۔ افغانستان کثیر النسلی ،کثیر اللسانی اور کثیر القومی ریاست ہے ۔ حکومت میں تمام گروہوں کی تسلی بخش نمائندگی سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہے ۔ طالبان اور نہ کوئی دوسرا اکیلا امن قائم کر سکتا ہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ طالبان اب پہلے والے نہیں رہے ، چاہے وہ افغان طالبان ہوں یا پاکستانی طالبان ، ان کے مختلف گروہ نہ صرف آپس میں برسرپیکار ہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے مفادات مختلف عالمی قوتوں کے ساتھ جڑ گئے ہیں ۔ افغانستان کے مختلف طالبان گروہ نسلی ، مذہبی ، فرقہ وارانہ اور علاقائی بنیادوں پر بنے تھے ، جنہیں متحد رکھنے کے لیے اب کوئی فیکٹر باقی نہیں رہا ۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت شاید پاکستان کو اب ’’ تزویراتی گہرائی ‘‘ نہ دے سکے ۔ وہ وقت دور نہیں ، جب طالبان کے مختلف گروہوں کا شدید ٹکرائو ہو گا اور القاعدہ سمیت دیگر انتہا پسند گروہ طاقت میں آجائیں گے ۔ افغان قوم بدنصیب ہے ، جنہوں نے گزشتہ تقریباً نصف صدی سے بدامنی ، تباہی و بربادی کے عذاب جھیلے ہیں ۔ بقول محترمہ بے نظیر بھٹو افغانستان نے 20 ویں صدی کے اواخر اور 21 ویں صدی کے اوائل کی دو عظیم جنگوں کے میدان کا کام دیا ہے ۔ محترمہ کی یہ بات درست ہے کہ ہمارے عہد کی دو عظیم جنگیں دراصل افغانستان کی زمین اور افغانوں کے خون سے جڑی ہیں۔ پاکستان بھی اپنی پالیسیوں کی وجہ سے ان دو عظیم جنگوں کی تباہی کا دوسرا بڑا حصہ دار ہے ۔ اب بہت ہو گیا ہے ۔ ہمیں پاکستان کو مزید تباہی سے بچانے کے ساتھ ساتھ افغانستان کے لیے بھی خیر مانگنی چاہئے ۔ افغانستان سے امریکی انخلا ایک نئے ورلڈ آرڈر کا حصہ ہے ۔ ہمیں اب پاکستان کوکسی عالمی کھیل میں نہیں جھونکنا چاہئے ۔ افغانستان ایک بار پھر بہت بڑا فلیش پوائنٹ بن گیا ہے ۔ بعض حلقے اس خود فریبی کا شکار ہیں کہ افغانستان کے طالبان نے پہلے ایک عالمی طاقت روس کو شکست دی اور اب دوسری عالمی طاقت امریکا کو شکست سے دوچار کیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں مرتبہ امریکا کو فتح حاصل ہوئی ۔ افغانستان کھنڈر بن گیا۔ وہاں کی معیشت تباہ ہو گئی ۔ اعتدال پسند سیاسی فکر اور سیاسی جماعتیں معدوم ہو گئیں ۔ افغان معاشرہ تکثیریت ( Pluralism) کے جوہر سے محروم ہو گیا ۔ اب مستقبل مایوسی کے اندھیروں میں گم ہو گیا ہے ۔ افغانستان کی تعمیر نو کا کہیں دور تک امکان نہیں ۔ انتہائی تشویش ناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک اور عالمی قوتوں میں بھی اپنے اپنے طالبان گروہوں کے ذریعہ افغانستان میں ’’ تزویراتی گہرائی ‘‘ حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہو چکی ہے ۔ افغانستان بد سے بدترین حالات کی طرف جا رہا ہے ۔ پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسیوں خصوصاً افغان پالیسی کا بہت خمیازہ بھگتا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ، جنرل ضیاء الحق کی حکومت ، جنرل پرویز مشرف کی حکومت اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل سے لے کر تحریک انصاف کی حکومت کے قیام تک سب افغان پالیسی کا شاخسانہ ہے ۔ پاکستان میں اعتدال پسند جمہوری قوتیں بہت کمزور ہو گئی ہیں ۔ خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ اب داخلی پالیسیاں بھی سیاست دانوں کے ہاتھ سے نکل رہی ہیں ۔ سیاسی قیادت کا رویہ اب یہ ہے کہ ’’ نہ پوچھا جائے ہے اس سے ، نہ بولا جائے ہے مجھ سے ‘‘ اگر اب بھی وسیع تر قومی مشاورت کے ذریعے افغانستان میں پیدا ہونے والی صورت حال سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی وضع نہ کی گئی تو سب لوگ یہی کہتے رہیں گے کہ حالات بہت خطرناک ہیں اور وہ کچھ کر نہیں سکیں گے ۔