اردو ادب (دہلی) کے شمارہ جنوری ۔ مارچ ۲۰۲۰ء میں شمس الرحمٰن فاروقی کا ایک مضمون شائع ہوا ۔اس کا عنوان ہی چونکا دینے والا ہے یعنی ’’ایک عاجزانہ التماس : کیا ہمیں اردو ادب کی ایک موزوں تاریخ نصیب ہوسکتی ہے؟‘‘
اس مضمون میں فاروقی صاحب کہتے ہیں کہ نکات الشعرا میں میر تقی میر ’’دکن( اصطلاحاًبشمول گجرات)کی اردو شاعری کے تقریباً ساڑھے تین سو سال کا ذکر بطور ِ معذرت یہ کہتے ہوئے نمٹا دیتے ہیں کہ وہاں ایک شاعر بھی ایسا نہیں گزرا جس نے دو مربوط مصرعوں والا کوئی شعر کہا ہو‘‘( ص ۹)۔ اردو کی ادبی تاریخ نگاری کا جھکاو دہلی کی طرف اس قدر زیادہ رہا ہے کہ دہلی کے باہر اردو کے کسی ادبی مرکز کے لکھنے والوں کو ہماری ادبی تاریخوں میں ان کا وہ جائز مقام نہیں دیا جاتا جس کے وہ مستحق ہیں ۔‘‘
اس کی مثال میں وہ کہتے ہیں کہ ’’ولی دکنی؍ولی گجراتی کو، جنھوں نے دہلی میں اردو زبان اور شاعری کو اپنی شاعری سے متاثر کیا بلکہ درحقیقت ان ہی کی بدولت اس کا آغاز بھی ہوا، طویل عرصے تک ان کے بنیادی کردار سے محروم رکھا گیا ۔ جمیل جالبی نے تو ان کی تاریخِ وفات کو بھی مؤخر کرنے کی کوشش کی تاکہ ان کی شاعری پر’ دہلی کے جاری رہنے والے اثر‘ کو کمک پہنچائی جاسکے ‘‘(ایضاً، ص۱۳)۔ مزید یہ کہ ’’محمد حسین آزاد نے دکن کا ایک شعر نقل کیا اور اس کا مذاق اڑاتے ہوئے طنزاً کہا کہ اگر یہ شاعری ہے تو پنجاب نے تو درجنوں شاعر پیدا کرلیے ہیں ۔ اس طرح پنجاب کو بھی حاشیے پر ڈال دیا گیا ‘‘(ص ۱۹)۔
فاروقی صاحب کا شکوہ اس حد تک بجا ہے کہ ہم اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ بے شک اردو زبان کی تشکیل شمالی ہند میں ہوئی لیکن اردو ادب کا آغاز جنوبی ہند میں ہوا اور اس کے اولین ادبی نمونے دکن یعنی جنوب ہی میں ملتے ہیں (لفظ دکن کے لغوی معنی جنوب کے ہیں اور یہ اُتّر یعنی شمال کی ضد ہے )۔ اردو کی اولین مثنوی کدم راو پدم راو کا شاعر فخر دین نظامی بھی تو دکنی ہی تھا۔ کمال خاں رستمی بیجا پوری کی خاور نامہ اردو کی پہلی رزمیہ مثنوی ہے اور اردو کی چند طویل ترین مثنویوں میں شامل ہے ۔
اس میں تقریباً چوبیس ہزار اشعار ہیں (بیجا پور بھی دکن کا حصہ ہے) ۔ اردو ادب کے اولین گہوارے یعنی سرزمینِ دکن نے ہمیں ولی دکنی جیسا شاعر بھی دیا جس نے شمالی ہند میں اردو زبان اور ادب دونوں کی روایات میں انقلاب ِ عظیم برپا کردیا۔یہ ضرور ہے کہ جنوبی ہند سے تعلق رکھنے والے اردو کے اہل قلم کی کاوشوں کا اعتراف اور ان پرمزید تحقیقی و تنقیدی کام کیا جانا چاہیے ۔
جنوبی ہند نے ہمیں جو شاعر دیے ان میں محمد قلی قطب شاہ بھی شامل ہیں ۔وہ اردو کے پہلے صاحب ِ دیوان شاعر ہیں۔جمیل جالبی صاحب کے مطابق قلی قطب شاہ گولکنڈا میں ۱۵۶۵ ء میں پیدا ہوئے ، ۱۵۸۰ء میں سریر آراے سلطنت ہوئے ،۱۶۱۱ء میں انتقال کیا۔ حاکم تھے مگر اردو کے زود گو اور صاحب ِ دیوان شاعر بھی تھے۔ تقریباً پچاس ہزار اشعار کہے(جالبی،جلد ۱، ص ۴۱۰ و بعدہٗ)۔محمد حسین آزاد نے ’’آب ِ حیات‘‘میں ولی دکنی کو ’’نظم ِ اردو کی نسل کا آدم‘‘ کہاہے ۔ لیکن یہ درست نہیں ہے کیونکہ ولی سے بہت پہلے قلی قطب شاہ کا اردو دیوان موجود تھا۔ مسعود حسین خان کے مطابق باباے اردو مولوی عبدالحق نے ۱۹۲۲ء میں سہ ماہی ’’اردو ‘‘ میں ایک مقالے کے ذریعے محمد قلی قطب شاہ کی کلیات کے ایک نسخے کا تعارف کرایا۔ مولوی صاحب نے قلی قطب شاہ کے دیوان کے جس مخطوطے پر کام کیا تھا وہ کتب خانۂ آصفیہ کا مخزونہ تھا۔ افسوس کہ یہ مخطوطہ غائب ہوگیا(مسعود، ہندوستانی ادب کے معمار: قلی قطب شاہ، ص ۲۷)۔
سالار جنگ میوزیم کے نسخۂ قدیم و جدید کی بنیاد پرغلام محی الدین قادری زور نے قلی قطب شاہ کا دیوان مرتب کیا جو شائع ہوچکا ہے اور بارہ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ بعد ازاں ڈاکٹر سیدہ جعفر نے بھی قلی قطب شاہ کے دیوان کی تدوین کی اور یہ بھی شائع ہوچکا ہے ۔ البتہ سیدہ جعفر نے اپنی مرتبہ کلیات محمد قلی قطب شاہ کے مقدمے میں قادری زور کے مرتبہ دیوان ِ قلی قطب شاہ پر یہ اعتراض کیا ہے کہ قلی قطب شاہ نے اپنی جن تخلیقات کے لیے ’’غزل ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے انھیں ڈاکٹر زور صاحب نے ’’نظم ‘‘ سے تعبیر کیا ہے (ص ۲۷۴)۔ ڈاکٹر سیدہ جعفرصاحبہ کے مطابق سالار جنگ کے ’’ان دونوں نسخوں میں کہیں کوئی عنوان دکھائی نہیں دیتا ، کلیات میں ڈا کٹر زور نے خود تمام عنوانات قائم کیے ہیں ‘‘(ایضاً)۔ ڈاکٹر سعیدہ کے مطابق یہ مسلسل غزلیں ہیں ۔ لیکن زور صاحب نے شاید اس خیال سے انھیں ’’نظم ‘‘ سے تعبیر کیا ہے کہ ان میں ایک خاص موضوع پر مسلسل اور مربوط خیالات پیش کیے گئے ہیں اور ان مسلسل غزلوں میں نظم کی طرح ایک مرکزی خیال موجود ہے (ص ۲۷۵)۔ اس پر مسعود حسین خان نے یہ تبصرہ کیا کہ اس اعتراض کے باوجود سیدہ جعفر صاحبہ نے اپنے مرتبہ دیوان میں ان عنوانات کو تھوڑی سی تبدیلی کے بعد برقرار رکھا ہے ۔ کیوں؟ (ہندوستانی ادب کے معمار:قلی قطب شاہ، ص ۲۸۔۲۷)اس کا کوئی جواب ہمارے پاس نہیں ہے۔
بہرحال، قلی قطب شاہ کے دیوان کی دو مستند و معتبر محققین کے ہاتھوں تدوین کے باوجود اس کی تفہیم اتنی آسان نہیں ہے اوربعض اوقات اس کا کلام قابلِ فہم نہیں رہتا۔اس کی ایک خاص وجہ قلی قطب شاہ کی زبان ہے ۔ دکن کی مقامی زبانیں دراصل دراوڑی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جبکہ اردو آریائی زبان ہے ۔مقامی زبانوں کے یہ اثرات اردو میں آکر عجب مشکلات پیدا کرتے ہیں۔پھر یہ اردو جو قلی قطب شاہ نے لکھی ہے تقریباً چار سو سال پرانی ہے۔ پھر اس کا املا بھی قدیم ہے اور بسا اوقات کسی لفظ کے مقامی دکنی تلفظ کوظاہر کرتا ہے ۔
قلی قطب شاہ کے ہاں علامت ِ فاعل(نے )کا استعمال نہیں ہے ۔اسما کی جمع دکن کے مقامی اصول (یعنی مثلاًرات کی جمع راتاں اور بات کی جمع باتاں وغیرہ)کے مطابق بھی بنائی گئی ہے۔ سیدہ جعفر کا خیال ہے کہ قلی قطب شاہ کی زبان پر برج بھاشا کا اثر ہے (ص۲۴۵ و بعدہٗ)۔ مسعود حسین خان یہ خیال پہلے ہی ظاہر کرچکے تھے کہ شمالی ہند کی زبان جب دکن پہنچی ہوگی تو ممکن ہے کہ کوئی ایک شمالی بولی جنوب نہ گئی ہو ’’بلکہ کئی بولیاں پہنچی ہوں جن کی آمیزش سے بعد کو وجہی اور قلی قطب شاہ کی معیاری دکنی متشکل ہوتی ہے‘‘ (مقدمہ ٔ تاریخ زبان اردو ، ص۲۰۲)۔
سیدہ جعفر کے مطابق آگرہ چونکہ ہندوستان کا دارالحکومت رہا تھا لہٰذا وہاں کی زبان یعنی برج کے علاقے کی زبان جسے برج بھاشا اور گوالیاری بھی کہتے تھے، اردو کی تشکیل میں اثر انداز ہوئی ہوگی ، گو بعد میں دارالسلطنت دہلی منتقل ہونے پر کھڑی بولی کے اثرات بڑھتے گئے(ص۲۴۷)۔ مسعود حسین خان کہتے ہیں کہ ’’مرہٹی اور گجراتی زبان کے بعض لسانی اثرات کو چھوڑ کر دکنی کے تمام غریب الفاظ کی توجیہ نواح ِ دہلی کی تین بولیوں (ہریانی، کھڑی اور برج) سے کی جاسکتی ہے ‘‘(ص ۲۰۱)۔
مسعود صاحب اپنی کتاب ’’قلی قطب شاہ‘‘میں لکھتے ہیں کہ قلی قطب شاہ کے دور تک اردو دکن میں تین سو ساڑھے تین سو برس میں ایک متعین شکل اختیار کرچکی تھی اور اس کا رشتہ شمالی ہند سے ٹوٹ چکا تھا ، مراٹھی وہ واحد آریائی زبان تھی جو دکن کی مقامی اردو سے لین دین کرسکتی تھی ۔ چنانچہ دکنی اردو میں جوصوتیاتی اور قواعدی خصوصیات پیدا ہوئی تھیں وہ اسے شمالی ہند کی اردو سے ممتاز کرتی ہیں اور وہ سب خصوصیات قلی قطب شاہ کے ہاں موجود ہیں(ص۷۱۔۶۵)۔انھی خصوصیات کی بنا پر مسعود صاحب نے لکھا ہے کہ قلی قطب شاہ کے کلام کے بعض حصوں ’’کی صحیح قرأت دکھنی اردو کے ماہرین کے لیے ابھی تک درد سر بنی ہوئی ہے ۔
اس کے اشعار باوزن طریقے پر پڑھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ‘‘ (ص۷۱)۔ لیکن بقول ان کے قلی قطب شاہ عروض پر پوری قدرت رکھتا تھا اور یہ فیصلہ کرنے سے قبل کہ اس کی شاعری بحر سے خارج ہے الفاظ کے املا کو دکنی صوتیات میں ڈھالنے کی ضرورت ہے ۔ انھوں نے سیدہ جعفر اور قادری زور پر بھی گرفت کی ہے کہ انھوں نے قلی قطب شاہ کے کلام میں موجود مشکل الفاظ کے معنی یا تو چھوڑ دیے ہیں یا بعض مقامات پر دیے گئے معنی تشنہ اور غیر توضیحی ہیں ،بلکہ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ زور صاحب نے بعض معنی غلط بھی لکھے ہیں(ص ۷۲۔۷۱)۔
گویا قلی قطب شاہ کی زبان کو سمجھنا آسان نہیں ہے اور دکنیات کے بعض ماہرین سے بھی اس ضمن میں غلطیاں ہوئی ہیں ۔ رہا شمس الرحمٰن فاروقی کا یہ شکوہ کہ جنوبی ہند کے اہل قلم کو اردو ادب کی تاریخ میں نظر انداز کیا گیا ہے تو یہ بات اس حد تک درست ہے کہ میر تقی میراور محمد حسین آزاد جیسے شمالی ہند سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ضرور دکن، پنجاب اور گجرات کی ادبی و لسانی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی لیکن محمد حسین آزاد نے ولی دکنی کو اردو شاعری کا باوا بھی تو آدم قرار دیا(یہ اور بات ہے کہ تحقیق سے یہ بات غلط ثابت ہوئی)۔ دوسری طرف باباے اردو مولوی عبدالحق جیسے لوگ بھی تو تھے جن کا تعلق یوپی ہی سے تھا لیکن انھوں دکن، دکنی زبان اور دکنیات پر وقیع کام کیا۔
مولوی عبدالحق نے قلی قطب شاہ کو اردو کا پہلا صاحب ِ دیوان شاعر ثابت کیا اور اس کے دیوان کا تعارف کروایا جبکہ یہ کام خود دکن والوں کے کرنے کا تھا۔مولوی عبدالحق نے ملا وجہی کی سب رس مرتب کی جو یقینا ادبی کارنامہ تھا۔دکنیات پر مولوی عبدالحق ہی کی وجہ سے توجہ مبذول ہوئی اور بعد ازاں اہل دکن بالخصوص قادری زور، نصیرالدین ہاشمی اور عبدالقادر سروری وغیرہ نے دکنیات پر کام کیا بلکہ اس کے لیے ادارہ ٔ ادبیات ِ اردو کے نام سے باقاعدہ ایک ادارہ قائم کیا جس نے دکنی ادب و زبان کی تحقیق میں گراں مایہ اضافے کیے۔ دوسرے یہ کہ سب ھی ادبی تاریخ نویس اردو ادب کی تاریخ کا آغاز جنوبی ہند سے کرتے ہیں اور دکن کی خدمات اور اوّلیات کا اعتراف کرتے ہیں ۔ اگر کہیں کسی ادبی مؤرخ سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو اسے نادانستہ یا لاشعوری ہی سمجھنا چاہیے۔