• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فقیروں پر قدرت کی خاص عنایات ہوتی ہیں۔ میں فقیر ہوں، مجھے کچھ باتیں فوراً سمجھ میں آ جاتی ہیں اور کچھ باتیں سر کھپانے کے باوجود قطعی سمجھ میں نہیں آتیں۔ یہ قدرت کی طرف سے مجھ فقیر پر خاص عنایت ہے۔ میں کبھی بھی کنفیوز نہیں ہوتا۔ آپ کنفیوز تب ہوتے ہیں جب آدھی بات آپ کی سمجھ میں آتی ہے اور آدھی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ تب آپ چکرا جاتے ہیں۔ بوکھلاہٹ میں اپنے بال نوچنے لگتے ہیں۔ اگر آپ گنجے ہیں اور اپنے بال نہیں نوچ سکتے تب آپ کسی اور کے بال نوچنے لگتے ہیں۔ ایسی کیفیت میں آپ یہ بھی نہیں سوچتے کہ جس شخص کے بال آپ نوچتے ہیں وہ اس کے اصلی بال ہوتے ہیں یا اس نے ٹنڈ پر وگ لگائی ہوتی ہے! تب بڑی گڑبڑ ہوجاتی ہے۔ مگر میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ بات مجھے یا تو سمجھ میں آتی ہے یا پھر سمجھ میں نہیں آتی۔ میں کنفیوز نہیں ہوتا۔ نا اپنے بال نوچتا ہوں اور نہ کسی اور کے بال نوچتا ہوں۔ کئی لوگوں کو میں نے شادی بیاہ کے معاملے میں کنفیوز دیکھا ہے۔ وہ ایک ایسی عورت کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں جو اچھا کھانا پکا سکتی ہو، بنی ٹھنی اور خوبصورت دکھتی ہو، فیشن کے مطابق اچھا لباس پہنتی ہو۔ آج تک ایسی عورت کی آمد دنیا میں نہیں ہوئی ہے۔ اس لئے ایسے حضرات کنفیوز رہتے ہیں۔ اگر وہ یہ فیصلہ کرلیں کہ وہ ایسی عورت سے شادی کے خواہاں ہیں جو اچھا کھانا پکا سکتی ہو تو ان کو کسی باورچن سے شادی کرلینی چاہئے۔ اگر وہ ایک ایسی عورت سے شادی کرنا چاہتے ہیں جو بنی ٹھنی اور دکھنے میں خوبصورت نظر آتی ہو تو انہیں کسی بیوٹی پارلر چلانے والی خاتون سے شادی کرلینی چاہئے اور اگر وہ ایسی عورت کی تلاش میں ہیں جو فیشن ایبل ہو اور جدید لباس پہنتی ہو تو اسے بوتیک چلانے والی یا کسی ماڈل سے شادی رچا لینی چاہئے۔ میں آپ سے شرط لگانے کو تیار ہوں کہ قیامت تک آپ ایسی عورت ڈھونڈ نہ پائیں گے جس میں یہ تمام خوبیاں موجود ہوں یعنی وہ خوبصورت ہو، فیشن ایبل ہو اور لذیذ کھانا پکا سکتی ہو۔ اگر آپ کسی سیاستدان خاتون سے یہ سوچ کر شادی کرنا چاہتے ہیں کہ شادی کے بعد وہ آپ کو ڈانٹے گی نہیں تو پھر آپ زندگی میں سب سے بڑے شاک کیلئے تیار رہیں۔ میرے ایک کبڑے دوست کی شادی نہ جانے کیسے ایک سیاستدان خاتون سے ہوگئی تھی۔ خاتون سیاستدان نے میرے کبڑے دوست کو کھڈے لائن لگا دیا تھا جہاں وہ چوہوں کو ڈبل روٹی کھلایا کرتا تھا۔ ہم پرانے اور دیرینہ دوست اپنے کبڑے دوست سے ملنے کو ترس گئے تھے۔ اچانک خاتون سیاستدان انتقال کرگئیں۔ ہمارا کبڑا دوست کھڈے لائن سے نکل آیا۔ یہ دیکھ کر ہم حیران بلکہ پریشان ہوگئے تھے کہ ہمارا کبڑا دوست کبڑا نہیں رہا تھا۔ وہ سیدھا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہمارا کبڑا دوست سیاسی افق پر چھا گیا تھا۔ سیاسی افق پر چھا جانے کے بعد اس نے ہم پرانے دوستوں کو پہچاننے سے انکار کردیا تھا۔ کبڑے کے رویّے سے سب کو دھچکا لگا تھا سوائے میرے۔ دوستوں کو دھچکا اس لئے لگا تھا کہ وہ کبڑے کے بارے میں کنفیوز تھے، میں نہیں۔ پچھلے ایک ہفتے سے ایم کیو ایم کے سربراہ کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں گشت کررہی ہیں۔ کچھ افواہیں میری سمجھ میں آتی ہیں اور کچھ افواہیں میری سمجھ میں نہیں آتیں۔ ایک افواہ یہ چلی تھی کہ لندن میں الطاف حسین کے گھر پر چھاپے کے دوران پولیس کو چالیس ملین پاؤنڈ اور قیمتی پتھر ملے تھے اور کچھ دستاویز بھی ملی تھیں۔ اس مبینہ واقعے کے چند گھنٹوں بعد الطاف حسین نے بذریعہ ٹیلیفون اپنے کارکنوں سے میرپور خاص، سکھر، حیدرآباد اور کراچی میں خطاب کیا تھا۔ پاکستان کے تمام ٹیلیویژن چینلز نے ان کا خطاب نشر کیا تھا۔ اس وقت پاکستان میں صبح کے تقریباً دس بجے تھے اور لندن میں آدھی رات تھی۔ یہاں میں فقیر کنفیوز ہوگیا ہوں۔ جو بات میری سمجھ میں نہیں آئی وہ بات میں خواہ مخواہ سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں اگر یہ بات درست ہے کہ لندن پولیس کو الطاف حسین کے گھر سے چالیس ملین پاؤنڈ، قیمتی پتھر اور اہم دستاویزات ملے تھے تو پھر لندن پولیس نے ایسے شخص کو دوسرے ملک میں ٹیلیفون پر خطاب کیسے کرنے دیا تھا؟
دوسری بات جو فقیر کی سمجھ میں نہیں آتی وہ یہ ہے کہ خطاب کے دوران الطاف حسین بار بار لندن پولیس کے ہاتھوں ہراساں ہونے کا ذکر کررہے تھے جو پولیس الطاف حسین کو ہراساں کررہی ہے وہی پولیس ان کو دھواں دار خطاب کرنے کی اجازت کیسے دے سکتی ہے؟ یہ بات فقیر کے پلّے نہیں پڑی۔ جو بات فقیر کے پلّے پڑی ہے وہ یہ ہے کہ لندن میں بڑا ہی پیچیدہ کھیل کھیلا جارہا ہے جو پاکستانیوں کے سر سے گزرتا جارہا ہے۔ دوسری بات جو فقیر کی سمجھ میں نہیں آتی وہ ہے الطاف حسین کے خطاب کا پاکستان کے تمام ٹیلیویژن چینلز سے ٹیلی کاسٹ ہونا۔ جہاں تک فقیر کو یاد پڑتا ہے حالیہ انتخابات میں ایم کیو ایم خالصتاً سندھ تک محدود رہی ہے۔ ٹیلی کاسٹ کے دوران ٹیلیویژن چینلز لوگوں کے تاثرات دکھا رہے تھے اور سنوا رہے تھے۔ جذباتی مناظر تھے۔ صوفی فقیر ہونے کے ناتے میں صرف ایک رقت انگیز نعرے کے بارے میں کچھ عرض کروں گا جو بار بار لگایا جارہا تھا۔ الطاف بھائی ہم آپ کے بغیر فنا ہوجائیں گے، برباد ہوجائیں گے۔ آپ ہمارے قائد تھے، آپ ہمارے قائد ہیں، آپ ہمارے قائد رہیں گے۔
جو شخص اس دنیا میں آتا ہے، ایک دن اسے اس دنیا سے جانا پڑتا ہے۔ یہ قدرت کا اٹل قانون ہے، انبیاء آئے، اکابرین آئے، فلسفی آئے، سائنسدان آئے، مفکرین آئے، سیاسی مدبرین آئے اور یہ دنیا چھوڑ کر چلے گئے۔ محور پر دنیا کی گردش میں کچھ فرق نہیں پڑا۔ ہم سب کی طرح الطاف حسین بھی اس دنیا سے چلے جائیں گے۔ تب اس طرح کی سوچ رکھنے والے کہ اگر الطاف نہ رہے تو سب کچھ ختم ہوجائے گا، کیا کریں گے؟ اس طرح کے رویّے کو سلوٹ CULT کہتے ہیں۔ اس طرح کی کیفیت میں پارٹی لیڈر کو قدو قامت میں پارٹی سے بڑا بنا دیا جاتا ہے۔ اسے demigod نیم دیوتا بنا دیا جاتا ہے۔ ایسے شخص کے اٹھ جانے کے بعد اس کا رچایا ہوا کھیل ختم ہوجاتا ہے۔ ایم کیو ایم کیلئے لمحہٴ فکریہ ہے۔
تازہ ترین