• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی کمانڈ افغان حکومت کے سپرد، جنرل اسکاٹ ملر نے عسکری قیادت چھوڑدی، اشرف غنی کے حوالے،جنرل میکنزی 650 امریکی فوجیوں کے سربراہ ہونگے

امریکی کمانڈ افغان حکومت کے سپرد، جنرل اسکاٹ ملر نے عسکری قیادت چھوڑدی


کابل(اےایف پی/خبرایجنسیاں،جنگ نیوز) امریکی کمانڈ افغان حکومت کے سپرد،جنرل اسکاٹ ملر نے عسکری قیادت چھوڑ دی، اشرف غنی کے حوالے، جنرل میکنزی 650امریکی فوجیوں کے سربراہ ہونگے، جنرل مکینزی بعض حالات میں افغانستان کی سرکاری فورسز کے دفاع میں فضائی کارروائیاں کر سکیںگے،طالبان اور سرکاری فوج میں جھڑپیں، افغان فضائیہ کی طالبان ٹھکانوں پر بمباری، نائب کمانڈر سمیت سیکڑوں ہلاکتوں کا دعویٰ،طالبان کا بھی ملک کے 421اضلاع میں سے ایک تہائی سے زیادہ کا کنٹرول سنبھالنے کا دعویٰ ، فن لینڈ نے انخلا روک دیا،طالبان نے غزنی کا گھیرائو کرلیا، صوبہ غور کے دو اضلاع پر قبضے کا دعویٰ، افغان وزیر خارجہ کاکہناہےکہ طالبان دوحا امن معاہدے کی پاسداری کریں۔افغانستان میں امریکی فوج کے اعلیٰ ترین کمانڈر نے پیر کو کابل میں ایک تقریب کے دوران اپنا عہدہ چھوڑ دیا جس سے امریکا اس ملک میں اپنی 20 سالہ جنگ کو ختم کرنے کے مزید قریب ہو گیا ہے،فوراسٹار جنرل اسکاٹ ملر اپنے عہدے سے ایک ایسے موقع پر الگ ہوئے ہیں جب طالبان ملک بھر میں تیزی سے پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں،جنوبی صوبہ قندھار سمیت ملک کے متعدد علاقوں میں پیر کوبھی لڑائی جاری رہی۔غیر ملکی خبررساںادارے کےمطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا کے ایک اور فور اسٹار جنرل کم از کم 31اگست تک کے لیے یہ عہدہ سنبھالیں گےتاکہ افغانستان میں سرکاری فورسز کے دفاع کے لیے ممکنہ فضائی کارروائیاں کی جا سکیں،جنرل اسکاٹ ملر نے 2018سے افغانستان میں امریکاکے اعلیٰ ترین کمانڈر کی حیثیت سے اپنی خدمات سرانجام دی ہیں اب باقی ماندہ ایام کے لیے افغانستان میں امریکی فوج کی کمان امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ مرین جنرل فرینک میک کینزی کو منتقل ہو گئی ہے جو فلوریڈا کے شہر ٹمپا میں سینٹرل کمانڈ کے ہیڈکوارٹرز سے نگرانی کریں گے،جنرل مکنزی کاکہناہےکہ اس اتحاد کی کمان میرے فوجی کیریئر کی خاص ترین ذمہ داری رہی، افغانستان نیشنل ڈیفنس اور سیکورٹی فورسز نے، جنہیں زیادہ تر فنڈز امریکا اور نیٹو کی جانب سے فراہم کیے جاتے ہیں، بعض مقامات پر طالبان کے آگے بڑھنے کی راہ میں مزاحمت کی لیکن زیادہ تر علاقوں میں کابل حکومت کی فورسز نے لڑنے سے اجتناب کیا اور میدان خالی چھوڑ دیا،حالیہ ہفتوں میں طالبان نے اسٹرٹیجک اہمیت کے کئی اضلاع پر فتح حاصل کی ، خاص طور پر ان اضلاع پر جو ایران، ازبکستان اور تاجکستان کی سرحدوں پر واقع ہیں۔افغانستان کے کل 421 اضلاع میں سے ایک تہائی سے زیادہ کا کنٹرول اس وقت طالبان کے پاس ہے، جب کہ طالبان یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کا تسلط ملک کے 85 فی صد حصے پر قائم ہو چکا ہے، اس دعوے کو زیادہ تر حقیقت سے بعید تصور کیا جا رہا ہے۔جنرل ملر کے بعد کابل میں قائم امریکی سفارت خانے میں تعینات ایک ایڈمرل افغانستان میں امریکی سفارتی موجودگی کے تحفظ اور کابل ایئرپورٹ کے دفاع کے امور کی نگرانی کریں گے۔جنرل ملر کے اپنا عہدہ چھوڑنے سے افغانستان میں امریکی فوجی مشن کی سطح میں کمی نہیں آئے گی، کیونکہ ان کے اختیارات جنرل میکینزی کو منتقل ہو جائیں گے اور وہ بعض حالات میں افغانستان کی سرکاری فورسز کے دفاع میں فضائی کارروائیاں کر سکیں گے۔تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ کس طرح کی صورت حال میں فضائی کارروائیاں کی جائیں گی اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ فضائی آپریشز کا اختیار کب تک جنرل میک کینزی کے پاس رہے گا۔اگرچہ واشنگٹن نے ابھی تک اس بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ اس کے کتنے فوجی افغانستان میں باقی رہیں گے۔ تاہم، سینٹ کام کے تقریباً ایک ہفتہ پہلے کے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ فوجی انخلا کا 90 فی صد کام مکمل ہو چکا ہے۔صدر بائیڈن نے ایک بار پھر یہ کہا ہے کہ امریکا افغانستان میں انسانی ہمدردی کے امور میں اپنی معاونت جاری رکھے گا اور وہ سن 2024 تک افغان سیکورٹی فورسز کے لیے سالانہ 4 ارب 40 کروڑ ڈالر کے فنڈز مہیا کرے گا،31 اگست کے بعد صرف 650 امریکی فوجی افغانستان میں رہیں گے جو کہ دارالحکومت کابل میں امریکی سفارت خانے کی سکیورٹی سنبھال لیں گے۔مزیدبرآںافغان وزیر خارجہ محمد حنیف اتمر نے کہاکہ ہمارے عوام جو افغانستان چاہتے ہیں اس کیلئے کام کررہے ہیں، ہمارا وژن ایک جمہوری اورپرامن افغانستان کا ہے، چاہتے ہیں اپنے تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھیں ۔ دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ افغانستان مقامی اوربین لاقوامی رائفلریز کا نہیں بلکہ امن پسند اور مفاہمت کا ملک ہے۔ افغانستان وہ ملک ہوگا جودہشت گردی اور بدامنی سے پاک معاشی اور معاشرتی طورپر مستحکم ہو۔

تازہ ترین