• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بالآخر وقت بدل گیا! جس طرح بھارت سیکولر جمہوریہ سے ہندو بنیاد پرست ریاست بن گیا۔ خارجی محاذ پر اپنا روایتی تشخص ترک کرکے پاکستان نے جنگوں کا اتحادی بننے کی بجائے، فقط امنِ عمل میں ہی کردار ادا کرنے کا عزم باندھ لیا ہے۔

پھر امریکہ کو کیسے ہزاروں میل دور جنگی مہمات میں بلین، ٹریلین ڈالر کے نفع و نقصان کو پالیسی سازی سے جوڑنا ہی پڑا۔ چین اور روس کے لئے افغانستان میں حقیقی باہمی مفاد کی بنیاد پر سرمایہ کاری کے مواقع، نیٹو اور بھارت کی افغانستان میں برسوں کی لاحاصل موجودگی کے بعد نکل ہی آئے۔ اور طالبان نے امریکہ اور نیٹو سے خود کو افغانستان کی سب سے بڑی اور ناقابلِ فراموش سیاسی قوت منوا ہی لیا بلکہ امریکہ کو تو جان چھڑانے کے لئے اُنہیں اور پاکستان کو ہی مطلوب امن پراسیس کا ناگزیر اسٹیک ہولڈر تسلیم کرنا پڑا۔

گھمبیر ہوتے افغانستان میں پس و پیش منظر کے متذکرہ ٹھوس حقائق واضح ہونے کے باوجود حیرت ہے کہ بھارت اپنی قسط وار خود کشی پر کیسے تلا بیٹھا ہے؟

حالانکہ بڑھتی اکثریتی غربت، آبادی کے غلبے، سرمایہ کاری کا عمل رکنے کے بعد کورونا وبا نے ملک میں تباہی مچا دی۔ لداخ کے متنازعہ علاقے میں متنازعہ و مشکوک انفراسٹرکچر کی تعمیر پر بےبندوق سرحدی جھڑپوں میں بڑا حساس علاقہ گنوانے اور قومی معیشت ہل جانے سے سراپائے شر مودی صدمے میں مبتلا ہے لیکن دہشت گردی پر ماہر بھارتی سرکار امریکی نیٹو افواج کے انخلا کے ساتھ ہی خود بھی فقط اپنی پاکستان مخالف موجودگی جلد ی جلدی لپیٹ کر محفوظ فرار کے باوجود افغانستان میں خانہ جنگی کے شیطانی حربوں سے باز نہیں آ رہی۔

انڈین ایئر فورس کے طیارے، جو بھاری فضائی بردباری کے بعد قندھار میں اپنے ’’سفارتی‘‘ جاسوسوں کو نکالنے کے لئے آئے، وہ اسلحے کی بڑی کھیپ لے کر آئے۔ خبروں کے مطابق وہ بڑی مقدار میں اسلحہ لے کر آئے جو خانہ جنگی میں استعمال ہونے والا ہے، اس کے تمام ثبوت تصویری شکل میں میڈیا کوریج سے ہی بےنقاب ہو گئے۔ امریکہ بھی جنگ سے اپنی مکمل اور واضح بیزاری کے بعد بگرام جیسا ایئر بیس خالی کر گیا۔

اُس کے مقابل مودی حکومت کی یہ دیدہ دلیری افغانستان کو انخلاکے ساتھ ہی خانہ جنگی میں دھکیلنے کا ایسا مجرمانہ فعل ہے کہ اس سے یہ تو کھل کر بےنقاب ہوا ہے کہ بھارت اب کیسا افغانستان چاہتا ہے؟

سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان اپنے سفارتی ابلاغ سے اس وقت سخت پریشان حال افغان عوام اور وہاں کے سیاسی گروہوں کو بھارت کے اس افغان دشمن کردار پر باور کرا سکتا ہے۔

اس کے مقابل پاکستان اپنے آپ کو افغان عمل کی تکمیل کے ساتھ ساتھ بڑی ذمے داری سے اِن سائیڈ افغانستان اپنی سرگرمیوں کو کم تر کر رہا ہے۔ اس کا اپنی سلامتی کے لئے کوششوں کا رخ بارڈر مینجمنٹ پر فوکس ہو گیا ہے۔ پاکستانی سفارتی ابلاغ میں بار بار یہ واضح کیا جا رہا ہے کہ پاکستان جلد سے جلد اور مکمل افغان قوم کو 40سالہ جنگ و جدل کے ماحول سے نکالنے کے لئے عملاً فکرمند ہے۔

یہ ہماری اپنی بڑی قومی ضرورت بن گئی ہے اور پاک افغان عوام کے گہرے رشتے بھی اس کا تقاضہ کرتے ہیں، اس لئے پاکستان نے افغان عمل کو کامیاب بنانے اور طالبان کے ساتھ نامساعد حالات میں بھی مسلسل انگیج کرکے ثابت کیا ہے کہ وہ پُرامن افغانستان کے لئے امریکہ اور طالبان کی مرضی سے اپنی ذمے داری اور خلوص نبھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

بڑی ضرورت یہ ہے کہ مودی حکومت ریاستی دہشت گردی میں جس قدر اور جتنی دیدہ دلیری سے ملوث ہو چکی ہے، دوست ممالک اور متعلقہ عالمی اداروں کو ان ممالک کے ساتھ مل کر ہی متوجہ کرکے اس کے خلاف پابندیاں لگوانے کی بڑی علاقائی ضرورت کو پورا کیا جائے۔

ہونا تو یہ بھی چاہئے کہ اب بھارتی عوام کی بڑی اکثریت جو مودی کی اس حد تک تشویشناک حکومت سے سخت بیزار اور بیمار ہونے کے بعد اب ہراساں ہو چکی ہے، بھارتی رائے سازوں اور سنجیدہ علمی سیاسی حلقوں کا مورال قائم رکھنے کے لئے ابلاغ کیا جائے۔

امریکہ اور نیٹو کے ممالک جنہوں نے سب کچھ جانتے ہوئے کہ وہ ’’بھارت کی افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری، پاکستان کو افغانستان سے اپنی ریاستی دہشت گردی کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘۔ بھارت کی خاموش سرپرستی ہی سہی، پر کم از کم واضح تو کر دیا جائے کہ ان کی افغانستان میں عسکری موجودگی میں بھارت ریاستی گردی کا سب سے بڑا کردار بنا۔

وزیراعظم کی لی گئی پوزیشن یقیناً بہت منطقی مدلل اور عالمی سطح پر قابلِ قدر ہے کہ اب ہم جنگ کے نہیں، امن کی پارٹنر شپ کریں گے لیکن اس کے متوازی ہمیں یہ بھی ثابت کرنا ہے اور دنیا کو باور کرانا ہے اور خود ہی نہیں چین اور روس کے ساتھ مل کر جو پاکستان کی سوچ کے مطابق ’’پُرامن افغانستان‘‘ کے منتظر ہیں۔

اپنے اور افغان قوم کے مشترکہ اور بڑے مفاد کے لئے جس طرح نیٹو کے اتحاد کی افغانستان میں موجودگی میں پاکستانی اور افغان عوام کے ساتھ ہوا اب افغان عوام کو مزید خانہ جنگی سے بچانے کے لئے متحد ہو کر پاکستان، چین، روس، ایران، ترکی، تاجکستان اور ازبکستان کو بھی مشترکہ سفارتی اور مطلوب عملی کوششیں کرنا ہوں گی اگر بھارتی ریاستی دہشت گردی کی انخلا کے بعد بھی جاری رکھنے کی دیدہ دلیری ثبوتوں کےساتھ واضح ہے تو خطے کے اور سب ہمسایہ ممالک افغانستان ہی نہیں پورے خطے کے استحکام و امن کے لئے مشترکہ کوششوں سے پابند کہ یہ سب کی مشترکہ ضرورت ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین