• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آزاد کشمیر کے انتخابی میلے میں سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ پاکستان سے اہم سیاسی جماعتوں کے قائدین وہاں پہنچ چکے ہیں۔ دوروں پر دورے کر رہے ہیں اور اپنا اپنا سودا بامنافع بیچنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر کے عوام کی یاد پاکستانی سیاسی قائدین کو اس وقت آتی ہے جب وہاں الیکشن کا دور دورہ ہو۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ آزاد کشمیر کی سوائے مسلم کانفرنس کے اور کوئی ریاستی سیاسی جماعت نہیں ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ کشمیر کی سیاست میں اہم کردار پاکستانی سیاسی جماعتوں کا ہے۔ بہرحال اگر کشمیریوں کو اس سے کوئی تکلیف نہیں تو اچھی بات ہے لیکن موجودہ انتخابات کے بعض پہلو قابلِ اعتراض ضرور ہیں۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ انتخابات دنیا کے کسی بھی ملک میں ہوں دراصل یہ اقتدار کی جنگ کا ملفوف نام ہے۔ البتہ بعض ممالک میں یہ وہاں کے عوام کی بہتری کا موجب ہوتے ہیں لیکن ترقی پذیر ممالک میں یہ محض اقتدار کے حصول کی جنگ ہی ثابت ہوئے ہیں۔

آج کل آزاد کشمیر میں انتخابی معرکہ میں فتح حاصل کرنے کے لئے سیاسی جماعتیں برسر پیکار ہیں لیکن ان انتخابی سرگرمیوں اور بہ الفاظ دیگر حصول اقتدار کی جنگ میں کچھ حدود کو پار کیا گیا ہے اور شاید انتخابی عمل تک یہ سلسلہ جاری رہے۔ سیاسی جماعتیں انتخابات میں ضرور حصہ لیں، جب تک یہ لولی لنگڑی اور عوام سے بےنیاز جمہوریت اور نظام چل رہا ہے، انتخابات کے میلے یوں ہی سجتے رہیں گے اور قوم کے اربوں روپے ان اقتدار کے دیوانے سیاستدانوں کی نذر ہوتے رہیں گے۔ سیاستدان عوام کو بیوقوف بناتے رہیں گے۔ شاید عوام بھی یہی چاہتے ہیں لیکن ملکی سلامتی کو دائو پر لگانے کی کسی کو نہ اجازت ہے، نہ ہونی چاہئے۔ آپ تھوڑا سا غور کر لیں کہ آزاد کشمیر میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ ووٹ وہاں کے ریاستی باشندوں نے دینے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت کی کوشش اور خواہش ہے کہ ووٹ کی سوغات ان کی جھولی میں ڈالی جائے۔ اس عمل کے نتیجے میں جو جماعت بھی برسراقتدار آتی ہے، اس کے اپنے مفادات کے حصول کے مقابلے میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے اقدامات آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں۔

سوچنے والی بات ہے کہ تقریباً ہر سیاسی جماعت نے آزاد کشمیر کے موجودہ انتخابات میں جیتنے والے امیدواروں جن کو انگریزی میں الیکٹ ایبلز کہتے ہیں اور یہی لفظ آج کل زیادہ مستعمل ہے، پر کروڑہا روپے خرچ کئے یا دائو پر لگائے ہیں۔ ایسے بعض امیدواروں کو کروڑوں روپے اور قیمتی گاڑیاں محض اس لئے دی جاتی ہیں کہ وہ اسی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے۔ تو سوچئے کہ ایسی سرمایہ کار جماعت اور ایسے ممبران اسمبلی عوام کی فلاح و بہبود پر کتنی توجہ دیں گے۔ آزاد کشمیر میں جیتنے والے امیدوار کی اہمیت اس لئے ہوتی ہے کہ وہاں ووٹ زیادہ تر برادری ازم پر دیے جاتے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ اکثر حلقوں میں جماعت کی اہمیت کا دارو مدار وہاں کے امیدواروں پر منحصر ہوتا ہے، نہ کہ سیاسی جماعت پر۔

موجودہ آزاد کشمیر انتخابات میں افسوسناک اور قابلِ اعتراض پہلو یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام کے لئے کسی سیاسی قائد نے اپنی تقریروں میں کوئی ذکر کیا، نہ اُن میں اپنا منشور عوام کے سامنے رکھا۔ وہاں کے عوام یہ ذہن میں رکھیں کہ ان سب قائدین کا ماضی میں ادوار حکومت کچھ شاندار نہیں ہے۔ ہم یہاں جماعتوں کے منشور، برسراقتدار آنے کی صورت میں آزاد کشمیر کے عوام کی بہتری کے لئے اپنی منصوبہ بندی کی تفصیل کا ذکر کر رہے ہیں کہ وہ یہ باتیں عوام کے سامنے پیش کرکے ان سے ووٹ مانگیں نہ کہ ایک دوسرے کی کردار کشی کریں۔ یہ ایسا شرمناک طرز عمل ہے جس میں کمی کے بجائے شدت آتی جا رہی ہے۔ ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کو سیاسی طور پر بےلباس کرنے اور اپنے گندے کپڑے چوراہے میں دھونے پر لگے ہیں لیکن آزاد کشمیر میں جا کر جو زبان اور گفتگو کی جا رہی ہے، وہ اس سے بھی زیادہ شرمناک اور قابلِ مذمت ہے۔ ملکی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کو اس پر بھی توجہ دینی چاہئے۔ یہ الزام لگانے سے کشمیری تو ووٹ نہیں دیں گے کہ عمران خان نے کشمیر کا سودا کر لیا ہے۔ یہ تو ملک دشمن الزام ہے۔ پاکستان کشمیریوں کی سیاسی و اخلاقی اور سفارتی مدد کر رہا ہے۔ پاکستانی قوم کے دل مقبوضہ کشمیر کے مظلوموں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور کوئی محض جوشِ خطابت میں گرمی پیدا کرنے کے لئے ایسی سخت باتیں کرے تو یہ کشمیریوں کے ساتھ ہمدردی نہیں بلکہ دشمنی ہے۔ جو سیاستدان ایسی باتیں کرتے ہیں، ان سے کوئی پوچھے ضرور کہ انہوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں یا بطور اپوزیشن کشمیریوں کے لئے کیا کیا ہے؟ بعض سیاستدان آزاد کشمیر میں کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ عمران خان کشمیر کا مقدمہ ہار گیا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ بھارت جیت گیا ہے۔ کبھی کہتے ہیں کہ امریکہ کو اڈے نہ دینے کا فیصلہ کسی دبائو کا نتیجہ ہے۔ آخر ایسی باتیں کرنے والے چاہتے کیا ہیں؟ اگر عمران خان نے کشمیر کا سودا کر لیا ہے تو یہ بھی تو بتایا جائے کہ عمران خان کو کیا ذاتی فوائد حاصل ہوئے؟ اس طرح کی فضول باتیں جلسے کے میدان کو گرم کرنے کے لئے نہیں ہونی چاہئیں۔ کشمیر پالیسی اور امریکہ کو اڈے نہ دینے کا فیصلہ اکیلے عمران خان کا نہیں ہے، یہ ریاستِ پاکستان کے فیصلے ہیں۔ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ اس وقت تک کھڑا رہے گا جب تک کشمیریوں کو بھارتی تسلط سے نجات اور حقِ خود ارادیت نہیں ملتا۔ اسی طرح امریکہ کو اڈے نہ دینے کا فیصلہ بھی پاکستان کے مفاد میں ریاست کا فیصلہ ہے۔ پی ٹی آئی کو بھی چاہئے کہ وہ چور ڈاکو کی گردان چھوڑ دے اور کشمیر میں جاکر کشمیریوں کی بات کرے، مخالفین پر الزامات کا فائدہ نہ پی ٹی آئی کو پاکستان میں ملا، نہ آزاد کشمیر میں ملے گا۔

تازہ ترین