• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کپاس کی پیداوار بڑھانے کیلئے ہنگامی اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں

ج۔م

پاکستان کا کپاس کا شعبہ اس وقت ز بوں حالی کا شکار ہے کبھی ہمارا س میں نام تھا اور بنگلہ دیس بھارت ہم سے کہیں پیچھے تھے لیکن ہماری ناعاقبت اندیش پالیسیوں ،غلط سیاسی اور ذاتی فائدوں کی وجہ سے کپاس کی فصل گراوٹ کا شکار ہو گئی ہے ،اب جس علاقے میں جہاں کپاس ہوتی تھی وہاں گنا اور دیگر اجناس نے قبضہ کر لیا ہے ،ہمارا ٹیکسٹائل سیکٹر اسی وجہ سے تباہی کے دہانے پر آکھڑا ہو ا۔

 
کپاس کی پیداوار بڑھانے کیلئے ہنگامی اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں
گوہر اعجاز

اپٹما نے کئی سال تک کپاس کی تباہی کی نشاندھی کی اس کے سربراہ گوہر اعجاز کی سربراہی میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہو یا مسلم لیگ ن کی یا اب پی ٹی آئی کی اپٹما فورم سے یہ آواز گوہر اعجاز بلند کرتے رہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو بلا جواز تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے یہ واحد سیکٹر ہے جو اربوں ڈالر کی برآمدات سے تجارت کا توازن بہتر بناتا ہے بلکہ لاکھوں افراد کو روزگار مہیا کرتا ہے۔ خدارا اس کو سوتیلا نہ سمجھا جائے اور اس سیکٹر کی بہتری کے لئے کسان اور صنعت کاروں کے ساتھ ملکر مشاورت سے پالیسیاں بنائی جائیں تاکہ کسان بھی خوشحال ہو اور ٹیکسٹائل کا پہیہ بھی چلتا رہے۔

گوہر اعجاز نے برملا ہر فورم پر اور وزیر اعظم عمران خان کے سامنے کپاس کی تباہی کے تمام پہلو رکھے اور انھیں سمجھایا کہ ٹیکسٹائل کے لئے بجلی گیس خطے کے دیگر ممالک کے برابر لائی جائے اور کپاس کی فصل زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے لئے زرعی پالیسیوں کو فروغ دیا جائے۔

کپاس کی پیداوار بڑھانے کیلئے ہنگامی اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں
احسان الحق

 اس حوالے سے چئیرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق کا کہنا ہے کہ تقریباً تین دہائیوں بعد پاکستان کو ملنے والی ٹیکسٹائل پراڈکٹس کے ریکارڈ برآمدی آرڈرز کے باعث پاکستان میں طویل عرصے بعد نئی ٹیکسٹائل ملز لگنے کے ساتھ ساتھ موجودہ ٹیکسٹائل ملز کی پیداواری صلاحیت میں ریکارڈ اضافے کے بعد ٹیکسٹائل ملز کو جس سب سے بڑے مسئلے کا سامنا تھا وہ خام مال کی عدم دستیابی تھا۔مختلف وجوہات کی بناء پر پاکستان میں کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار تاریخ کی کم ترین سطح 57لاکھ بیلز تک گرنے کے باعث ٹیکسٹائل ملز کو بیرون ملک سے دو ارب ڈالر سے زائد مالیتی روئی جبکہ گھی ملز کو بھی ریکارڈ خوردنی تیل درآمد کرنا پڑاجس پر اربوں ڈالر خرچ ہوئے اور ملک معاشی طور پر کافی کمزور ہوا۔

اس موقع پر حکومتی حلقوں میں دیکھی جانے والی تشویش کے باعث فیصلہ کیا گیا کہ اس سال ملک میں کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں گے تاکہ پاکستان کو روئی اور خوردنی تیل کی درآمد پر سالانہ اربوں ڈالر خرچ نہ کرنے پڑیں،اس موقع پر توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ وفاقی بجٹ 21-2020ءمیں کاٹن انڈسٹری کو خاطر خواہ ریلیف دینے کیلئے بڑے اقدامات اٹھائے جائیں گے تاکہ کاٹن انڈسٹری کی پوری چین اس سے مستفید ہونے سے کپاس کی آمدنی میں اضافے کا براہ راست فائدہ کسانوں کو ہونے سے ان میں زیادہ کپاس پیدا کرنے کا رجحان پیدا کیا جا سکے لیکن حیران کن طور پر حالیہ وفاقی بجٹ میں روئی کی فروخت پر عائد سیلز ٹیکس 10 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد جبکہ کاٹن سیڈ آئل پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا جس سے پوری کاٹن انڈسٹری میں تشویش دیکھی جارہی ہے ۔خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان نئے ٹیکسز کے نفاذ سے کاٹن جننگ انڈسٹری معاشی بحران کا شکار ہونے سے اس کے براہ راست اثرات کاشت کار وں پر مرتب ہونگے جس سے حکومت کا وہ خواب شاید پورا نہ ہو سکے جو وہ پاکستان میں کپاس کی پیداوار بڑھانے کےبارے میں دیکھ رہی تھی۔

پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) نے وفاقی بجٹ میں مذکورہ ٹیکسز کے نفاذ کے بعد اسلام آباد میں اعلیٰ حکومتی حلقوں سے کئی روز تک ملاقاتیں کی اور انہیں ان ٹیکسز کے نفاذ سے کاٹن انڈسٹری اور کاشتکاروں پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کے بارے میںآگاہ کیا گیا اور ان سے درخواست کی گئی کہ قومی اسمبلی میں بجٹ پاس ہونے سے قبل مذکورہ ٹیکسز واپس لیے جائیں تاکہ پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں اضافے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے لیکن شو مئی قسمت کہ نئے وفاقی وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے مذکورہ ٹیکسز واپس لیے جانے بارے پیش کی گئی کٹوتی کی تحریک کا نان پروفیشنل طریقے سے جواب دیا اور کہا کہ کاٹن سیڈ آئل پر عائد کیا گیا سیلز ٹیکس گھی ملز ادا کرے گی جبکہ روئی کی فروخت پر بڑھایا جانے والا 7 فیصد سیلز ٹیکس ٹیکسٹائل ملز ادا کریں گی۔ 

اس لیے کاٹن جنرز ان ٹیکسز سے متاثر نہیں ہو نگے جس کی بنا پر مذکورہ ٹیکسز واپس نہیں لیے جا رہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گھی ملز مالکان نے مذکورہ 17 فیصد سیلز ٹیکس ادا نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور انہوں نے وفاقی بجٹ میں جن نئے ٹیکسز کے نفاذ کے باعث گھی کی قیمتوں میں 15 روپے فی کلو تک اضافے کا خدشہ ظاہر کر کے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خزانہ شوکت ترین کو جو خطوط تحریر کیے ہیں ان میں اس سیلز ٹیکس کا کوئی ذکر نہیں ہے کیونکہ پاکستان بناسپتی مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے ایک ترجمان کے مطابق وہ گھی ملز سے کاٹن سیڈ آئل سیلز ٹیکس سمیت خریدتے ہیں جس کے باعث آئل ملز مذکورہ سیلز ٹیکس ادا کرنے کی پابند ہیں جبکہ روئی کی فروخت پر اضافی 7 فیصد سیلز ٹیکس ٹیکسٹائل ملز کاٹن جنرز کو ادا کرنے کے بعد ایف بی آر سے ایڈجسٹمنٹ کے بعد فنڈ کی صورت میں ایف بی آر سے کلیم کرتے ہیں جس میں کم از کم 3 سے 4 ماہ کا عرصہ لگ جاتا ہے اور اس دوران کروڑوں روپے فنڈ کی صورت میں ایف بی آر کے پاس جمع رہنے کی صورت میں اس پر ادا کیے جانے والے بینک مارک اپ کے اثرات کاٹن جنرز اور کاشتکاروں پر مرتب ہوتے ہیں۔

لیکن وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین شاید اس سائنس کو نہیں سمجھ سکے اور انہوں نے مذکورہ ٹیکسز واپس نہ لینے کا اعلان کیا ہے جس پر پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے ) نے بہاولپور میں ایک ہنگامی اجلاس مرتب کیا جس میں کاٹن انڈسٹری پر ان نئے ٹیکسز کے نفاذ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان سے مذکورہ ٹیکسز فوری طور پر واپس لینے کی اپیل کی گئی اور اس بات کا بھی عندیہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ ٹیکسز واپس نہ لینے کی صورت میں ملک بھر کے کاٹن جنرز فیکٹریاں بند کرنے کا بھی فیصلہ کر سکتے ہیں۔

پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں غیر معمولی کمی کے بعد کچھ عرصہ قبل وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے پاکستان میں کپاس کی پیداوار بڑھانے کیلئے جن ہنگامی اقدامات اٹھانے کا وعدہ کیا گیا تھا ان میں سے عملی طور پر کوئی اقدامات بظاہر نظر نہیں آ رہے جن میں خاص طور پر ڈی اے پی کھاد پر دی جانے والی سبسڈی صرف 12 ایکڑ تک کے زمینداروں کیلئے محدود کی گئی ہیں جبکہ ڈی اے پی کی قیمتیں بھی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 5 ہزار 800 روپے فی بیگ تک پہنچ گئیں ہیں جس سے کپاس کی فی ایکڑ پیداوار میں کمی کے خدشات نظر آ رہے ہیں جس سے خدشہ ہے کہ پاکستان کو ایک بار پھر رواں سال بھی اربوں ڈالر مالیتی روئی اور خوردنی تیل درآمد کرنا پڑے گا۔

تازہ ترین