الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کنٹونمنٹ بورڈز کے بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوتے ہی، چاروں صوبوں کی 43چھاؤنیوں کے علاقوں میں سیاسی جماعتوں نے بلدیاتی انتخابات کے لئے امیدواروں کے چناؤ اور انتخابی جوڑ توڑ شروع کردیا ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈز میں بلدیاتی انتخابات بارہ ستمبر کو ہوں گے۔ عید الاضحیٰ کے بعد ان علاقوں میں سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آجائے گی۔ پنجاب کی بیس چھاؤنیوں میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کے درمیان ہی اصل کانٹے دار مقابلے ہوںگے۔
ان بلدیاتی انتخابات میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لئے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی نے منصوبہ بندی مکمل کرلی ہے اور علاقے کے مضبوط ترین امیدواروں کو ٹکٹ دے کر انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کے نتائج پنجاب کے آئندہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات پر اثر انداز ہوں گے۔ اس لئے دونوں بڑی جماعتوں ان انتخابات میں اپنے امیدواروں زیادہ سے زیادہ امیدواروں کی کامیابی کے لئے تمام وسائل بروئے کار لارہی ہیں۔
گذشتہ چار دہائیوں سے پنجاب کے بلدیاتی اداروں پر مسلم لیگ (ن) کی حکمرانی چلی آرہی ہے، پی ٹی آئی پہلی مرتبہ بلدیاتی اداروں کو مالی، سیاسی اور انتظامی اختیارات دے کر خود مختار بلدیاتی ادارے قائم کرنے کا دعویٰ کررہی ہے، لیکن اس میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا تاہم پی ٹی آئی نے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی منصوبہ بندی شروع کردی ہے۔
اس حوالے سے صوبائی حکومت نے ڈیڑھ سال قبل بلدیاتی ادارے توڑ کر نئے بلدیاتی نظام کے تحت بلدیاتی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا جس میں وہ تاحال کامیاب نہیںہوسکی۔ اس حوالے سے حکومت نے پنجاب اسمبلی سے نئے بلدیاتی نظام کے لئے قانون سازی بھی کی لیکن الیکشن کمیشن کے شدید تحفظات کے باعث اس پرعمل نہ ہوسکا جبکہ سپریم کورٹ نے بلدیاتی اداروں کی ایک درخواست پر بلدیاتی اداروں کو بحال کرنے کا حکم صادر فرمایا لیکن اس پربھی تاحال حکومت سے عمل درآمد نہیںکرایا جاسکا۔
اب جبکہ وزیراعظم نے وزیراعلیٰ پنجاب کو کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کے بعد ایک بار پھر صوبے میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا گرین سگنل دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لئے کیا اقدامات اٹھاتی ہے، اس حوالے سے اگلے چند مہینوں میں صورت حال واضح ہوجائے گی۔ وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار اپنے قائد وزیراعظم عمران خان کے اعتماد پر پورا اترنے کے لئے سردھڑ کی بازی لگارہے ہیں وہ خود کو وسیم پلس ثابت کرنے کے لئے صوبے کی تعمیرو ترقی میں خاموشی سے دن رات کوشاں ہیں۔
صوبائی بجٹ کی منظوری کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب بہت متحرک ہوگئے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بجٹ اجلاس سے قبل وزیراعلیٰ کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لئے پی ٹی آئی کے اندر اور باہر ان کے خلاف سازشیں ہوئیں۔ اپوزیشن نے بزدار حکومت گرانے کے لئے بڑے پاپڑ بیلے۔ پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین گروپ اور دیگر ناراض اراکین کے علاوہ حکمران اتحادی جماعت کی قیادت سے بھی بالواسط اور بلاواسطہ رابطے کرکے ایسا سیاسی ماحول پیدا کیا کہ پنجاب حکومت چند دنوں کی مہمان ہے اپوزیشن پنجاب اسمبلی سے صوبائی بجٹ منظور نہیں ہونے دے گی جس سے بزدار حکومت ازخود گر جائے گی لیکن اپوزیشن بزدار حکومت کو گرانے کے یہ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت آسانی سے صوبائی بجٹ منظور کرانے میں کامیاب ہوگئی۔ دوسرا گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی جیسے ماہر، تجربہ کار اور منجھے ہوئے پارلیمنٹرینز کا انہیں مکمل تعاون حاصل رہا ہے۔ پنجاب کی ان دونوں اہم حکومتی شخصیات نے گورنر ہاؤس اور پنجاب اسمبلی کو ماضی کی طرح وزیراعلیٰ کے خلاف سازشوں کا گڑھ نہیں بننے دیا۔
اپوزیشن کے ان پر بار بارسیاسی حملوں کی ناکامی کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب صوبے کی تعمیر و ترقی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے خود بھی میدان میں نکل پڑے ہیں ان دنوں وہ پنجاب کے مختلف اضلاع کا دورہ کرکے ہر ضلع میں اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرنے میں مصروف ہیں۔ پنجاب میں 2021-22کے دوران پانچ کھرب ساٹھ ارب کے ریکارڈ ترقیاتی فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔
ماضی کی حکومت کے ایمرجنسی سروس 1122، میو ہسپتال سرجیکل ٹاور، وزیرآباد انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی اور پنجاب اسمبلی کی عمارت جیسے منصوبوں کے فنڈز روک کر پنجاب کے عوام اور اراکین اسمبلی سے بڑی زیادتی کی گئی۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے اپنی نگرانی میں آب پاک اتھارٹی کے تحت پنجاب کے پسماندہ علاقوں اور غریب آبادیوں میں شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لئے فلٹریشن پلانٹس پر اربوں روپے خرچ کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
ابتک چھتیس اضلاع میں شہریوں کو پینے کے صاف پانی کے 280سے زائد منصوبوں پر کام جاری ہے جس سے اڑھائی کروڑ سے زائد لوگ مستفید ہوں گے اس کارخیر میں گورنر پنجاب کے ہمراہ ان کی اہلیہ بیگم پروین سرور ان کے شانہ بشانہ دن رات کام کررہی ہیں، ان میگا پراجیکٹس کی تکمیل سے ناصرف وزیراعظم اور پی ٹی آئی حکومت کو عوام میں پذیرائی مل رہی ہے بلکہ مہنگائی، بے روزگاری اور ناانصافی جیسے مسائل سے حکومت کی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو سہارا ملا ہے، اور اس کے آئندہ بلدیاتی انتخابات پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔