• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس پرانے خط کو میں نے تعویذ بنا کر رکھ لیا ہے ، خلوص کی صداقت میں ڈوبا ہوا وہ عنایت نامہ اردو زبان اور ادب کی شہسوار محترمہ صالحہ عابد حسین کے چھ صفحوں کا وہ خط ہے جس میں انہوں نے دل کھول کر رکھ دیا ہے۔ ۳۵ سال سے بھی زیادہ پرانا یہ خط لکھنے کا سبب میری وہ کتاب بنی جس میں بر صغیر کا دورہ کرکے دیکھا گیا تھا کہ ہمارے بزرگوں کے دور کی کتابیں کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ اس قدر جامع خط ہے کہ اس میں ہر بات کہہ دی گئی ہے۔ اتنی کہ یہاں کوئی تمہید باندھنے کی ضرورت نہیں۔ بس یہ کہتا چلوں کہ صالحہ عابد حسین بڑے ہی اعلیٰ علمی گھرانے کی بیٹی اور اتنے ہی دانش ور گھرانے کی بہو تھیں۔ اپنے وقت کی زندہ تحریکوں میں ان کی شراکت کی بنا پر بھارت سرکار نے انہیں چوتھا اعلیٰ قومی اعزاز دیا۔ مجھے اپنے سفر کے دوران ان کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف ملا تھا۔ ان کا خط پڑھ کر جبین عقیدت آج بھی جھک جاتی ہے۔خط طویل ہے اور ایسا ہے کہ اس کا کوئی حصہ حذف کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ اس لئے اس کا نصف حصہ آئندہ ہفتے کے لئے اٹھا رکھتا ہوں۔ پڑھئے اور میرے ساتھ وقت کی لہروں پر سفر کیجئے:

صالحہ عابد حسین۔ جامعہ نگر نئی دہلی۔۲۵,۹اکتوبر ۸۵ء

عزیزی رضا عابدی۔ دعائیں، خیال بھی نہ تھا کہ آپ سے اس طرح ملاقات ہوگی۔میری بھتیجی سیدہ سیدین کے ہاں ایک نہایت خوب صورت جلد سے مزین ، اعلیٰ درجہ کی کتابت، عمدہ کاغذ پر چھپی ایک کتاب میز پر رکھی دیکھی۔ توجہ اس نے کھینچ لی۔ اٹھائی۔ مصنف کا نام رضا علی عابدی ۔ موضوع ہندو پاک کے کتب خانے۔ کتاب اٹھا لائی۔اور مصروفیت ، گرمی، بیماری کے باوجود تین دن میں پڑھ ڈالی اور اسی وقت یہ خط اس حسین ، مفیدلاثانی کتاب کی اشاعت پر مبارک باد دینے کے لئے لکھ رہی ہوں۔

یہ کتاب اگر ایک طرف ہندوستان اور پاکستان کے مشہور و معروف کتب خانوں سے تفصیلی تعارف کراتی ہے تو اس سے کہیں زیادہ ان گم نام ، بدحال کتابوں کے بے بہا ذخیروں سے واقف کراتی ہے جس میں بے مثال کتابوں کے جواہر بے بہا اور دُر ہائے بیش بہا پوشیدہ ہیں۔ علم و ادب ،مذہب اور تصوف اور دنیا بھر کے علوم کے خزانے خاک میں رُل رہے ہیں یا ان کی طرف توجہ نہ کی گئی تو کچھ عرصے میں ختم ہو جائیں گے۔ جب آپ شاید دو سال پہلے مجھ سے ملنے شام کے وقت آئے تھے تومیرے حاشیہ خیال میں بھی نہ تھا کہ آپ اتنے عظیم کام کا بیڑا اٹھا کر آئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اتنا مشکل اور ایسا کٹھن کام تھا جو علم و ادب سے پوری طرح واقف ٹیم کے لئے بھی مشکل تھا مگر آپ نے تنہا اس بارِ عظیم کو اٹھایااور اس کا حق ادا کردیا۔اب یہ صاحبانِ دل اور صاحبانِ عزم کا کام ہے کہ علم و ادب کے ان بیش بہاخزانوں کو کسی طرح تباہ ہونے سے بچائیں ۔اپنے ملکوں میں صاحبانِ علم اور قدر داں حضرات نایاب نہیںمگر ان تک پہنچنا کس طرح ممکن ہو۔ اربابِ سیاست و اقتدار کو اس کی فرصت کہاں ہے،ذوق کہا ں ہے؟بہر حال آپ نے بہت بڑا کام کیا ہے اس کی ایک بار پھر دلی مبارک بادد یتی ہوں۔

بظاہر اس ’کتب خانہ‘ کے خشک نام سے لوگوں کو وہ کشش نہیں ہو سکتی جو اس کا حق ہے، وہ کیا جانیں کہ اس خشک نام میں کیسے گل ہائے تر،برگِ سبز اور لولوئے شاہوار اور گوہر آبدار پوشیدہ ہیں۔آپ نے نہ صرف معلومات حاصل کرکے جمع کی ہیں بلکہ کتاب کو اس قدر دلچسپ بنا دیا ہے کہ ہاتھ میں لے کر چھوڑنے کو جی نہیں چاہتاہے۔ عنوانات ہی ذہن کو کھینچ لیتے ہیں: علم کی وادی، عبادت جاری ہے، بے خبری کا سلسلہ، چھ ہزار سنگِ میل، دروازہ خاور بند ہے وغیرہ۔ ان عنوانات ہی کی داد دینا مشکل ہے نہ کہ نفس مضمون کی۔

میں نے برادرِ محترم کرنل شبیر حسنین زیدی سے کل آپ کی کتاب کا تذکرہ کیا ، وہ پڑھنے کے مشتاق ہیں اور میں نے سیدہ سے پوچھ کر کل یا پرسوں انہیں پڑھنے کے لئے کتب خانہ بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔اگرچہ اب وہ بہت ضعیف ہوگئے ہیں ۔ عمر ماشااﷲ ۸۶سال ہے مگر کام کا عزم اور قومی خدمت کی لگن کچھ پہلے سے بھی زیادہ ہے۔رضا لائبریری اور دوسری کئی لائبریریوں کے لئے انہوں نے حکومت سے کہہ کر بہت سی کتابیں فراہم کی ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نظام دکن کی لائبریری کے بارے میں حیدرآباد میں بات کروں گا اور نیشنل آرکائیوز میوزیم کے لئے کہوں گا کہ وہ لوگوں سے کتابیں خرید کر ان کو محفوظ کرے۔ آپ ضرور ان کو ایک کتاب بہت جلد بھجوادیجئے اور اس کے ساتھ ہوسکے تو اپنا ایک خط جس میں اپنی تجاویز بتائیے گا۔

مجھ نا چیز کے پاس سات آٹھ الماریاں کتابوں سے بھری ہوئی ہیں مگر یہ صرف شائع شدہ ہیں ۔ عابد صاحب کا جرمن اور انگلش کتابوں کا مختصر سا ذخیرہ انہوں نے اپنی زندگی میں جامعہ کی ذاکر حسین لائبریری کو دے دیا تھا۔ سیدین صاحب کی بیشتر کتابیں(جو میرے ہاتھ لگ سکیں)وہ بھی میں نے ذاکر حسین لائبریری کو دے دی ہیں۔ اس کے پیچھے ایک گہرا زخم ہے۔ میرے والد خواجہ غلام الثقلین اور عم محترم خواجہ غلام الحسین نے ایک خاصا بڑا کتب خانہ جمع کیا تھا جس میں سنا ہے کہ انگریزی اور عربی فارسی فرانسیسی وغیرہ کی بہت سے اہم کتابیں تھیں اور شاید مخطوطات بھی ۔والد کے انتقال کے بعد (میری عمر ۲ سال میرے بڑے بھائی جان کی ۱۲ سال)میرے چچا سے نواب صاحب رام پور نے یہ کتب خانہ رضا لائبریری کے لئے خریدنا چاہا ۔ شاید دس ہزار (اُس دور کے دس ہزار) کی پیش کش کی جو ان کےیتیم بچوں کے لئے بہت ہوتی۔ مگر میرے چچا ؤںا ور پھوپیوں کو اپنے مرحوم بھائی کی کتابوں سے عشق تھا۔ وہ کیسے گوارا کرتے کہ اس خزانے کو جدا کردیں۔ چنانچہ بڑے چچا اس میں اضافہ کرتے رہے۔پھوپی اماں محترمہ نے اپنے گھر میں ایک بڑا کمرہ بنوا دیا اور الماریاں بنوائیں (بہت محدود آمدنی کے باوجود) اور اس میں کتابیں اپنے خیال میں محفوظ کیں۔ ہم بچوں کویہ اجازت بھی نہ تھی کہ اپنے باپ کی ان کتابوں کو چھوئیں بھی۔چند سال بعد عم محترم کا بھی انتقال ہوگیا اور خاندان والوں کو یہ امید رہی کہ سیدین صاحب اس لائبریری کو سنبھا لیں گے۔ مگر وہ اپنے کاموں اور مصروفیتوں میں تھے۔ یہاں تک کہ سنہ ۴۷ کا زمانہ آیا۔پانی پت اجڑا۔تیس ہزار مسلمان اپنا وطن، گھر اور ہر چیز چھوڑ کر پاکستان جانے پر مجبور ہوئے اور جب چند سال بعد پنڈت نہرو کی مدد سے میں اور میرے چھوٹے بھائی اظہر عباس پانی پت گئے تو اس گھر یا اس کے آس پاس ان دس ہزار کتابوں میں کسی کا ایک ورق بھی نہ تھا۔ یہ تو تھی کہانی میرے والد کے کتب خانے کی۔ مولانا حالی کے کتب خانے کی کہانی بھی ایسی ہی درد ناک ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین