نوجوانوں کو پیسے سے نہیں تعلیم سے محبت ہونی چاہیے
ڈیرہ غازی خاں کے گاؤں،’’دری ڈھولے والی‘‘ سے ایک کھلا خط
میرا تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان کے ایک چھوٹے سے گاؤں’’ دری ڈھولے والی‘‘ سے ہے۔ دری سے مراد ڈیرہ یعنی بیٹھک ہے اور ڈھولا کسی خوش مزاج شخص کا نام تھا ،جس کی بنا پر اس کا نام دری ڈھولے والی پڑ گیا۔ابتداء میں یہ چھوٹا سا گاؤں کاشتکاری کے شعبہ سے وابستہ تھا بعد ازاں شہر کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ یہاں کے رہائشیوں کا زیادہ شوق کاروبار کی طرف تھا، جس کی وجہ سے یہاں بہت سارے کاروباری مراکز، فلک بوس عمارتیں اور بے شمار آفس قائم ہو گئے ہیں لیکن بد قسمتی سے تعلیم کا شوق نہ تھا، کالج تو دور کی بات یہاں کوئی ہائی ا سکول تک نہیں ہے ۔
یہاں کے لوگ سمجھتے ہیں کا ماننا ہے کہ علم سے مراد سرکاری ملازمت کا حصول ہے یہی وجہ ہے کہ جب کوئی نوجوان میٹرک یا ایف اے کرنے کے بعد بھی سرکاری ملازمت کے منصب پر فائز نہ ہو سکے تو اس کو علاقے کے لوگوں سے یہ دل شکن جملہ سننے کو ملتا ہے کہ پھر تمہاری تعلیم کا کیا فائدہ ۔ اسی لیے عموماََ والدین اپنے زیر تعلیم بچوں کو یہ کہہ کرا سکول سے اُٹھا لیتے ہیں کہ پڑھ کر تو نے کون سا وکیل یا جج بننا ہے۔ تعلیم سے دوری کی ایک اور وجہ یہاں کے شہریوں کی پیسے سے بے حد محبت ہے جس کی بنا پر وہ اپنے سولہ سالہ لڑکے کا غیر قانونی طریقے سے شناختی کارڈ بنوا کر باہر مزدوری کےلئے بھیج دیتے ہیں تاکہ پیسے کا حصول زیادہ سے زیادہ ممکن ہو سکے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا:
مشقت سے بیٹے کے ہاتھ پہ پڑے چھالے
اور والدین خوش کہ بچہ کمانے لگ گیا
جس عمر میں میں کتابیں ہونی چاہیں، وہ اینٹیں اُٹھائے ہوتے ہیں ۔ جن کپڑوں کو سیاہی سے آلودہ ہونا تھا وہ آج خون سے آلودہ ہیں جن کپڑوں سے خوشبو کو مہکنا تھا آج وہ پسینے سے شرابور ہیں۔ اس صورت حال کی بنیادی وجہ پیسے سے محبت اور تعلیم سے دوری ہے لیکن وقت کا تقا ضا ہے کہ تعلیم بہت ضروری ہے۔ اس لیے حکومت کو اس علاقے میں تعلیم کے فروغ کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہیں۔ یہاں کے باسیوں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ علم سے مراد پیسے کا حصول اور سرکاری ملازمت نہیں بلکہ زعور و آگہی ہے۔
ان کے دلوں میں علم کی محبت اس وقت ہی جنم لے سکتی ہے جب ان کو باعث تخلیق کائنات حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سمجھ میں آ جائے کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے ،ان کے دل اس وقت ہی علم کی محبت کے اسیر ہو سکتے ہیں جب ان کو یہ سمجھ آجائے کہ، محبوب خدا نے قیدی کفار کو اس شرط پر رہائی کا پیام سنایا تھا کہ جن کے پاس فدیہ نہیں ہے وہ مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سیکھا دیں ۔
میری متعلقہ حکام سے گزارش ہے کہ ہمارے علاقے ’’دری ڈھولےوالی‘‘ میں اسکول ہی نہیں کالج بھی قائم کیے جائیں۔ بچوں، جوانوں میں تعلیم سے دل چسپی پیدا کی جائے تاکہ علم کے دیے روشن ہوں۔ کاش میرے علاقے میں بھی علم کی کرنیں روشن ہوں۔ ( محمد فیاض سیفی)