• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی آپ کے ساتھ ایسا ہوا ہو کہ آپ نے کام کرنے کا ارادہ کیا ہو اور پھر آپ کے موبائل یا لیپ ٹاپ نے آپ کے اس ارادے کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہو؟ جب آپ اپنے دماغ کو کام پہ رضا مند کر لیتے ہیں تو ساتھ ہی ایک آواز آتی ہے اور جیب میں وائبریشن سی ہوتی ہے۔ آپ کو ایک نوٹیفیکیشن موصول ہوا ہے۔ یا کسی کا پیغام، جس میں لکھا ہے ‘‘Hi’’۔ آپ کے 5ہزار فیس بک فرینڈز میں سے کوئی آپ سے گپ شپ کرنا چاہتا ہے۔ کسی شخص کو آپ کے نظریات سے اختلاف ہے۔ آپ کی شان میں وہ ایک سخت طنزیہ فقرہ ادا کرتا ہے۔

آپ ہمت کرکے فیس بک کا نوٹیفیکیشن ہی بند کر دیتے ہیں۔ کچھ دیر بعد آپ کو تجسس ہونے لگتا ہے اور کیسے نہ ہو۔ آپ نے ایک عدد اسٹیٹس اپ لوڈ کر رکھا ہے۔ آپ کے دل و دماغ یہ چاہتے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال پر آپ کے جامع تبصرے کو زیادہ سے زیادہ لوگ پسند اور شیئر کریں۔ زیادہ سے زیادہ لوگ آپ کے حق میں کمنٹ کریں۔ آخر دیکھنا تو پڑے گا ہی، کس نے اس پر کیا تبصرہ کیا۔ آپ کام کرنا چاہتے ہیں لیکن تجسس آپ کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ اب آپ اسے چیک کیے بغیر اپنے کام پر توجہ مرکوز کر سکیں۔ آپ لیپ ٹاپ کھول کر دیکھتے ہیں۔ جو لوگ آپ سے گپ شپ کرنا چاہتے ہیں، انہیں آپ کی مصروفیت سے کوئی غرض نہیں۔ اسے یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ آپ اس کا پیغام دیکھ چکے ہیں۔ اگر آپ جواب نہ دیں تو تعلقات خراب ہوں گے ۔

ایک شخص آپ کا مذاق اڑاتا ہے۔ آپ بھنا کر اسے جواب دیتے ہیں۔ پھر اس کا جواب الجواب موصول ہوتاہے۔ پھر آپ کا جواب الجواب جاری ہوتا ہے۔ انا کی ایک جنگ شروع ہو جاتی ہے، جو کئی روز تک جاری رہتی ہے۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ یہ سب کچھ کمنٹس میں ہورہا ہے۔ لوگ اس کے کمنٹس بھی دیکھ رہے ہیں اور آپ کے بھی۔ اس کے حامی اسے داد دے رہے ہیں، آپ کے دوست آپ کو۔ سرِ بازارتماشا ہو رہا ہے۔

کام کے دوران ایک دفعہ موبائل اور لیپ ٹاپ کھولنے کی دیر ہے، معاملہ آپ کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آگے تو پورا بازار سجا ہوا ہے۔ آپ جب اسکرول ڈائون کرنا شروع کرتے ہیں تو اس وقت آپ کی حالت اس بچّے کی سی ہوتی ہے، جو گھر سے سودا سلف لینے نکلا تھا لیکن میلہ دیکھنے لگا۔ بچّے کو تو کئی گھنٹوں بعد اس وقت ہوش آہی جاتا ہے، جب سور ج غروب ہونے لگتا ہے۔ سوشل میڈیا کا یہ میلہ تو کبھی ختم ہی نہیں ہوتا۔

انسانی دماغ فطرتاً کام سے جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہے۔ آپ یہ دیکھیں کہ دنیا کے 7.8ارب انسانوں میں سے کتنے ہیں جو دماغ سوزی کرتے ہیں۔ ایک فیصد بھی نہیں۔ جب بھی آپ کوئی دقیق ذہنی کام شروع کرتے ہیں تو دماغ اس سے جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ آپ کو اکساتا ہے کہ کیوں نہ کام میں ایک لمحے کا وقفہ کر کے ذرا سوشل میڈیا پہ نظر دوڑا لی جائے۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔ فرض کریں کہ آپ پانچ چھ سال کے ایک بچّے کو کام سے باہر بھیجتے ہیں۔ باہر اگر میلہ لگا ہوا ہے اور وہ اگر میلہ دیکھنے کھڑا ہو جاتا ہے تو قصور کس کا ہے؟ بچّے کو تو اتنا شعور نہیں کہ آپ اسے موردِ الزام ٹھہرا سکیں۔تو آپ غیرارادی طور پر فیس بک اسٹریم کو اسکرول ڈائون کرنا شروع کر دیتے ہیں۔بےپناہ ایسے معاملات میں انسان گم ہو جاتا ہے، جن میں ہرگز اسے پڑنا نہ چاہئے تھا۔

ایک صحافی کا کام ہے اپنے نظریات کی ترویج کرنا۔ سوشل میڈیا پہ جتنے لوگ اسے پڑھنے والے ہوں گے، اتنا ہی اچھا ہے۔ اس لئے اگر وہ دن رات اپنے نظریات کی تبلیغ میں مصروف ہے تو پھر بھی بات سمجھ آتی ہے۔ میں بیشتر لوگ بغیر کسی معاوضے اور بغیر کسی مادی فائدے کے دن رات سوشل میڈیا پہ برسرِ جنگ رہتے ہیں۔ کبھی جب ان پہ طنز ہوتا ہے تو دل شکستہ ہو کر رو پڑتے ہیں اوروہ بھی مجمع عام میں۔

انسان کو اس قدر مصروف کر دیاگیا ہے کہ غور و فکر کے لئے اب اس کے پاس ایک لمحہ بھی موجود نہیں۔ دوسروں سے بات کرتے ہوئے انگلیاں جیسے خودبخود حرکت میں آجاتی ہے۔ ایک متوازی زندگی وجود میں آچکی ہے۔ اپنی اولاد سے کھیلتے ہوئے بھی انسان سوشل میڈیا استعمال کر رہا ہوتاہے۔ بچے جھولوں پہ بیٹھ کر موبائل فون استعمال کر رہے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ آج کا انسان زومبی بن گیا ہے۔ لوگ سوشل میڈیا کی نفسیات میں زندگی گزارنے لگے ہیں۔ کیا انسان اب سوشل میڈیا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا؟ شدید مصروفیت کے ان چند ماہ میں، میں ایک تجربہ کر رہاہوں لیکن مستقل سوشل میڈیا سے دور رہنے کا ہرگز کوئی ارادہ نہیں۔ جلد ہی ’’محبت‘‘ کرنے والے مجھے اپنے بیچ پائیں گے!

تازہ ترین