• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم جس فیملی میں پروان چڑھتے ہیں، جس محلہ میں کھیل کود کر لڑکپن گزارتے ہیں، جن تعلیمی اداروں سے پڑھ لکھ کرجواں ہوتے ہیں، جس محکمہ میں ملازمت کرتے ہیں، وہ سب ہماری شخصیت پر مستقل چھاپ چھوڑ جاتے ہیں۔ پچھلی قسط میں آپ کو بتایا تھا کہ نادرا کے دفتر میں ایک سترہ اٹھارہ برس کا نوجوان شناختی کارڈ بنوانے آیاتھا۔ اسے ملی ہوئی مانگے تانگے کی پہچان قبول نہیں تھی۔ وہ بضد تھا کہ حقائق کے مطابق اسے شناختی کارڈ جاری کیا جائے۔ حقائق کڑوے کسیلے تھے۔ایک یتیم خانے والوں کو وہ نوزائیدہ کچرے کے ڈھیر پرپڑا ہوا ملا تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کے ماں باپ کون تھے۔ یتیم خانہ والوں نے اسے پال پوس کر بڑا کیا تھا۔ اسے نام دیا تھا، خادم حسین اور والدکانام دیاتھا، ولی دادخان اسی نام سے اس نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ اب وہ خیر سے سترہ اٹھارہ برس کا ہونے کو آیا تھا۔ شناختی کارڈ کا حصول اس کے لئے لازمی ہوچکا تھا۔ اسی مقصد کے تحت وہ نادرا کے دفترآیا تھا۔ شناختی کارڈ کے اجرا کی تقریباً پینتالیس سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کوئی اپنی اندوہناک شناخت چھپانے کی بجائے اپنی المناک شناخت کو واضح طور پراپنے شناختی کارڈ میں ’’لوح‘‘ کی طرح لکھی ہوئی ہونے پر بضد تھا۔وہ اپنی بات پر اڑ گیاتھا۔’’ یتیم خانہ والوں کو میں کچرے کے ڈھیر پر پڑا ہوا ملا تھا‘‘۔ نوجوان نے کہا ۔’’ میں نہیں جانتا کہ میرا باپ کون تھا۔ میں نہیں جانتا کہ میری ماں کون تھی۔ یہی میری شناخت ہے‘‘۔کھردرے ڈائریکٹر نے سخت لہجہ میں افسر سے کہا ۔’’ اس لڑکے کو میرے کمرے میں لے آئو‘‘۔

جس سخت گیر محکمہ سے ریٹائرہونے کے بعد وہ نادرا کے دفتر میں ڈائریکٹر لگا تھا، اس سخت گیر محکمہ کی واضح چھاپ اس کے بول چال پرلگی ہوئی تھی۔ تمکنت سے چلتے ہوئے کھردرا سخت گیر ڈائریکٹراپنے کمرے کی طرف چلاگیا ۔ افسر نوجوان خواستگار کو لیکر کھردرے ڈائریکٹر کے کمرے کی طرف چل پڑا۔دفتر میں موجود افسر، اور شناختی کارڈ کے خواستگار کام کاج بھول کرغیر معمولی صورت حال میں محو ہوگئے تھے۔ میں ان لوگوں میں شامل ہوگیا جواپنی اپنی جگہ سے اٹھ کر کھردرے ڈائریکٹر کے کمرے کے قریب چلے گئے تھے۔ ہم ایسے زاویے سے اندر کا منظر دیکھ رہے تھے۔ جہاں سے ہم کھردرے ڈائریکٹر کی ریڈار جیسی نگاہوں سے پوشیدہ تھے۔ڈائریکٹر نے قدرے سخت لہجہ میں نوجوان سے پوچھا۔’’تمہیں شناختی کارڈ چاہیے؟‘‘۔ ’’جی سر۔‘‘

’’ میٹرک کے سرٹیفکیٹ میں تمہارا نام خادم حسین لکھا ہوا ہے، اور تمہارے والد کا نام ولی داد خان‘‘۔ ۔یہ تمہاری شناخت ہے۔ اسی شناخت کے ساتھ تمہیں شناختی کارڈ جاری ہوسکتا ہے‘‘ڈائریکٹر نے کہا۔’’ یہ میری مصنوعی شناخت ہے، مجھ پر تھونپی گئی ہے‘‘۔ نوجوان نے ڈائریکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔’’ میری حقیقی شناخت یہ ہے کہ میں یتیم خانہ والوں کو گٹر بغیچہ کے قریب کچرے کے ڈھیر پر پڑا ہوا ملا تھا۔ کوئی نہیں جانتا کہ میری ماں کون تھی۔ کوئی نہیں جانتا کہ میرا باپ کون تھا‘‘۔’’ ہم اپنا ادارہ اخترا عی شناختوں پر نہیں چلاسکتے ‘‘۔ ڈائریکٹر نے سختی سے کہا ۔’’ تم خادم حسین ہو۔ تمہارے والد کا نام ہے ولی داد خان۔ یہ تمہاری شناخت ہے۔ اسی شناخت کی بناپر تمہیں شناختی کارڈ مل سکتا ہے‘‘۔

’’ شناختی کارڈ کا حصول میرا آئینی حق ہے‘‘۔ نوجوان نے کہا ۔’’ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جان بوجھ کرKnowinglyاپنی اصلی اور حقیقی شناخت کو چھپا کر غلط معلومات کی بنیاد پر شناختی کارڈ بنوانا جرم ہے۔سر، آپ مجھے غلط معلومات کی بنیاد پر شناختی کارڈ بنوانے کی ترغیب دے رہے ہیں‘‘۔افسر کی ڈر کے مارے میں جان نکلتے نکلتے رہ گئی ۔ وہ کھردرے ڈائریکٹر کے غصے سے واقف تھا۔’’تمہارے لئے قوانین نہیں بدل سکتے‘‘۔ ڈائریکٹر کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ آتش فشاں کی طرح غصہ کے لاوے سے کھول رہاتھا۔ غالباً اس نے بھانپ لیاتھا کہ دفتر میںموجود اس کے ماتحت اور شناختی کارڈ کے حصول کے لئے آئے ہوئے خواستگار ماحول میں بڑھتا ہوا تنائو اور کھنچائو محسوس کررہے تھے۔ غصہ پر قابو پاتے ہوئے سخت گیر ڈائریکٹر نے کہا ۔’’ قوانین تبدیل کرنابچوں کا کھیل نہیں ہے۔ اس کاحتمی فیصلہ قومی اسمبلی میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد آئین میں ترمیم کرنی پڑتی ہے۔ اور یہ تمام پیچیدہ اقدام تم اکیلے کے لئے نہیں اٹھائے جا سکتے۔ تم میری بات سمجھ رہے ہونا؟‘‘۔نوجوان نے اطمینان اور ٹھہرائو کے ساتھ جواب دیتے ہوئے کہا۔’’ میں اکیلا نہیں ہوں۔ آپ اخبار پڑھتے ہیں، سر ؟ روزانہ فلاحی اداروں اور یتیم خانے والوں کو گندے نالوں، کچرے کے ڈھیروں اور ویرانوں سے میرے جیسے بے شمارنوزائیدہ بلکتے ہوئے یا مردہ حالت میں ملتے ہیں۔ ہماری اپنی ایک پہچان ہے۔ ہماری اپنی ایک شناخت ہے۔ آپ کیوں ہمیں شناختی کارڈ دینے سے انکار کررہے ہیں؟‘‘۔’’ یہ لڑکا مجھے دشمن ملک کاا یجنٹ لگ رہا ہے۔ شناختی کارڈ کےبہانے ہمارے پاک صاف معاشرے کے چہرے پر کالک ملناچاہتا ہے‘‘۔ خرانٹ ڈائریکٹر نے سہمے ہوئے افسر سے کہا ۔’’ اس خناس کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کردو۔‘‘

تازہ ترین