• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماتحت عدلیہ مخصوص ریکارڈ پر ضمانتی درخواست مسترد کرسکتی ہے، سپریم کورٹ

اسلام آباد(رپورٹ:رانا مسعود حسین) سپریم کورٹ نے لاہور میں ایک کرایہ دار کی جانب سے جعلی بیع نامہ تیار کرکے نجی اسپتال کی عمارت پر قبضہ کرنے کے مرتکب ملزم افتخار احمد کی ضمانت سے متعلق ایک مقدمہ کا فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیاہے کہ ماتحت عدلیہ کے جج، سزا ئے موت،عمر قید یا دس سال سے کم سزا کے حامل جرائم میں ملوث ملزمان کی جانب سے دائر کی گئی ضمانت کی درخواستوں کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 497(1)کے تحت مخصوص ریکارڈ ،شواہد اور حالات کی بناء پر ہی مسترد کرسکتے ہیں ،ایک زیر سماعت مقدمہ کے دوران ملزم کی جانب سے ٹرائل سے روپوش ہوجانے ، استغاثہ کے ریکارڈ میں ٹمپرنگ کرنے ،استغاثہ کے گواہان پر اثر انداز ہونے یا سابق ریکارڈ یافتہ ہونے کی بناء پر دوبارہ اسی نوعیت کے جرم کا ارتکاب کرکے معاشرے میں بدنظمی پھیلانے کا خدشہ ہو تو معاشرے کو اس سے محفوظ رکھنے کے لئے ہی حراست میں رکھا جاسکتا ،جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل تین رکنی بنچ نے فراڈ اور جعلسازی سے نجی ہسپتال کی عمارت پر قبضہ کرنے کے مرتکب کرایہ دار ،ملزم افتخاراحمد کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست کے فیصلے میں مذکورہ بالا آبزرویشز دی ہیں کہ ماتحت عدالتوں میں دائر ہونے والی ضمانت کی درخواستوں میں جج صاحبان کوضابطہ فوجداری کی دفعہ 497(1)کے تحت اپنے صوابدیدی اختیارات کے استعمال کے لئے اپنی فہم و فراست اور بصیرت کواستعمال کرنا چاہیے ،اور صرف ایسے ملزمان کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کی جانی چاہیئیں جن کے ٹرائل سے روپوش ہوجانے ، استغاثہ کے ریکارڈ میں ٹمپرنگ کرنے ،استغاثہ کے گوہان پر اثر انداز ہونے یا دوبارہ اسی نوعیت کے جرم کا ارتکاب کرکے معاشرے میں بدنظمی پھیلانے کا خدشہ ہو، 4صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ جسٹس سید منصور علی شاہ نے قلمبند کیا ہے ،جس میں عدالت نے قرار دیاہے کہ کسی زیر سماعت مقدمہ کے ملزم کو حراست میں رکھنے کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ٹرائل تیزی کے ساتھ مکمل کیا جاسکے اور معاشرے کو اس ملزم کے شر سے محفوظ رکھا جاسکے ،عدالت نے قرار دیا ہے کہ ہماری تشویش یہ ہے کہ ماتحت عدالتیں ضمانت کی درخواستوں کی سماعت کے دوران ضابطہ فوجداری کی دفعہ 497(1)کے تحت اپنے صوابدیدی اختیارات کو استعمال نہیں کرتی ہیں،یہ دفعہ ایک جج کو ملزم کی ضمانت منظو رکرنے کے صوابدیدی اختیارسے اس وقت روکتی ہے جب ملزم کسی ایسے جرم میں ملوث ہو جس کی سزا موت،عمر قید یا دس سال ہو ،یاوہ کیس مزید انکوائری کا متقاضی ہو اور استغاثہ نے اس حوالے سے باقاعدہ مواد اور وہ حالات و واقعات عدالت میں پیش کئے ہوں ،جن میں ملزم کو حراست میں رکھنا ضروری ہو ،فاضل جج نے سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے قرار دیاہے کہ تمام جرائم ہی ضابطہ فوجداری کی دفعہ 497(1)کے تحت ممنوعہ کلاز میں نہیں آتے ہیں،عدالت نے قرار دیا ہے کہ ایک جج کو مقدمہ کے حالات وواقعات اور دستیاب مواد کا جائزہ لیتے ہوئے ہی ضمانت کی درخواست کو منظور یا مسترد کرنا چاہیئے ،یا درہے کہ ملزم افتخار پر الزام ہے کہ وہ اس نے ایک نجی ہسپتال کے لئے عمارت کرایہ پر لی اور اس کے بعد ایک جعلی بیع نامہ تیار کرکے خود ہی اس کا مالک بن گیا ،جس پر تھانہ باٹا پور لاہور پولیس نے اس کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات ہائے 420,468اور 471کے تحت ایف آئی آر درج کرکے اسے گرفتار کرلیا تھا ،ملزم نے متعلقہ سیشن کورٹ میں ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست دائر کی تھی جسے عدالت نے مسترد کردیا ،جس کے خلاف اس نے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی ،اسے بھی عدالت نے مسترد کردیا ،جسکے خلاف اس نے سپریم کورٹ میں یہ اپیل دائر کی تھی ،عدالت نے5 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ملزم کی ضمانت منظور کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اگر ملزم ضمانت کا کسی بھی صورت میں فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹرائل میں تاخیر کا سب بنتا ہے تو استغاثہ ملزم کی ضمانت کی منسوخی کے لئے مجاز عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔

تازہ ترین