• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اِس وبا نے دنیا کیا بدلی کہ اب تو دنیا کا امن بھی داؤ پر لگا نظر آ رہا ہے۔ ہمارا دوست اور مہربان ملک امریکہ پاکستان سے خوش نظر نہیں آ رہا۔ ہماری سیاسی اشرافیہ کا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی صاف گوئی نے مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ پھر اپوزیشن کے اہم لیڈروں کا کہنا ہے کہ پاکستان امریکہ کے سابقہ معاہدوں کی وجہ سے اُس کا پابند ہے اور ان میں سب سے اہم فضائی حدود کا معاملہ ہے۔ افغانستان سے امریکہ نکل رہا ہے جبکہ افغانستان میں لڑنے والے گروہ کہہ رہے ہیں کہ وہ فرار ہو رہا ہے، جو کچھ بھی ہے پاکستان امریکہ یہ کو باور کرانے میں ناکام رہا ہے کہ اس طرح فرار ہونا امن کے لئے خطرناک ہے۔ امریکہ میں سرکار کی تبدیلی کے بعد اب امریکی افواج اصل میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان کے نزدیک بڑی فوج والا کوئی دوسرا ملک افغانستان میں ان کی جگہ لے سکتا ہے۔ بڑی فوج والے ممالک میں بھارت اور چین نمایاں ہیں اور چین اِس حوالے سے مکمل خاموش ہے۔میرے خیال میں امریکہ نے پاکستان کی بہت مدد بھی کی ہے۔ بظاہر تو امریکہ ہمارے ایٹمی پروگرام کے خلاف تھا مگر ان کی افواج کے اہم لوگ اور امریکی سیاست دان چاہتے تھے کہ پاکستان ایٹمی طاقت بنے اور ایٹم بم بنائے۔

میں اُس زمانے میں پاکستان ایئر لائن میں کام کرتا تھا اور مجھے معلوم ہے کہ نیو یارک سے ہماری پرواز ایمسٹر ڈیم کے راستے کراچی آتی تھی۔ اس زمانہ میں کارگو جہاز میں ایسے آلات اور سامان آتا رہا جو ہمارے ایٹمی پروگرام کے لئے تھا۔ امریکی کاروباری لوگ وہ سامان اس یقین کے ساتھ پاکستان کو فروخت کرتے تھے کہ وہ اپنی نالائقی کی وجہ سے اُنہیں استعمال نہیں کر سکے گا۔ پھر اس زمانہ میں نواز ٹوانہ پاکستان ایئر لائن کے اعلیٰ افسر تھے اور ڈائریکٹر بھی۔ ان کا امریکی دوستوں سے رابطہ تھا اور دوسری طرف پاکستانی اعلیٰ عسکری حلقوں سے تعلق تھا اور بہت اہم اور حساس پرزے امریکہ نے پاکستان کو فروخت کئے، صرف اِس نظریہ سے کہ گولی کا استعمال بندوق کے ساتھ ہوگا اور پاکستان بندوق بنا نہیں سکتا۔

جب پاکستان دولخت ہوا، اس وقت تک بھٹو صاحب امریکی دوستی کے معترف تھے، مگر بعد میں امریکی اور بھارتی تعلق نے ان کو مایوس کیا اور وہ نظریاتی طور پر چین کے قریب ہو گئے مگر وہ چین کا اعتماد حاصل نہکر سکے۔ ہماری عسکری اشرافیہ امریکہ کی تربیت یافتہ تھی مگر مشرقی پاکستان میں امریکی کردار نے ان کو مایوس کیا۔ امریکہ پھر بھی قابلِ احترام رہا اور ایک وقت آیا جب امریکہ نے بھارت کو جنگ بندی کا حکم بھی دیا۔ جب بھارت مغربی پاکستان پر یلغار کرنا چاہتا تھا اس وقت چین، ترکی اور لیبیا نے پاکستان کی کافی مدد بھی کی تھی مگر پاکستان کی حیثیت امریکہ کے نزدیک اہم تھی۔ بھٹو مرحوم نے ایٹمی پروگرام کے بارے میں چین سے مشاورت بھی کی مگر چین خود بھی اس وقت اپنے نئے نظام کے لئے کام کر رہا تھا اور ماؤزے تنگ کا کہنا تھا کہ چین کو کم از کم 50سال تک کسی جنگ میں شریک نہیں ہونا اور اس کے بعد چین بدلنا شروع ہوا۔ بہر حال بھٹو مرحوم کو جنرل ضیا نے امریکی مفاد میں آ کر بےبس کیا اور مارشل لا لگایا۔

پاکستان ایئر لائن نے ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں بہت ہی اہم کردار ادا کیا۔ یہ ایشیا کی پہلی فضائی کمپنی تھی جو امریکہ کے لئے پرواز کرتی تھی اور اس ایئر لائن کی بدولت امریکہ چین جانے والی پروازوں پر خفیہ آلات لگا کر چین کی جاسوسی کرتا تھا، ایسا مخلص دوست امریکہ کو کہاں مل سکتا تھا جبکہ اس زمانہ میں بھارت روس بھائی چارہ امریکہ کے لئے خطرہ تھا مگر بھارتی جو امریکہ میں کام کرتے تھے وہ امریکہ کی انتظامیہ کو باور کرواتے رہے کہ روس کے معاملات پر وہ امریکی دوستوں کو تمام اہم معاملات سے باخبر رکھیں گے اور بھارتی لابی بہت مضبوط بھی تھی۔ خیر پاکستان میں ایٹمی پروگرام شروع ہوا اور ڈاکٹر قدیر خان کو موقع ملا کہ وہ اپنے جوہر دکھا سکیں۔ ڈاکٹر صاحب ایٹم بم کے ماہر نہیں تھے اور امریکی مطمئن تھے کہ پاکستان کو اس سلسلہ میں طویل محنت کرنی ہو گی۔ بھٹو کے بعد جنرل ضیا کو اندازہ ہوا کہ امریکہ دغا بازی کر رہا ہے پھر ڈاکٹر قدیر نے اپنی ٹیم میں ایٹم بم بنانےکے ماہرین کو شامل کیا اور ایٹمی قوت بننے کا خواب پورا ہوتا نظر آنے لگا۔

اب امریکہ کے نزدیک جنرل ضیا ایک خطرہ بن چکا تھامگر وہ اب بھی دوست تھا اور پھر افغانستان کے معاملات کی وجہ سےامریکہ نے ایٹمی پروگرام کونظرانداز کیا اور پاکستان افغانستان میں روس کے خلاف امریکی جنگ میں اہم حلیف بنا۔ اب ہماری عسکری اشرافیہ کو اندازہ ہوا کہ ایٹمی پروگرام ضروری ہے اور پھر ایٹم بم بن گیا مگر اس کا اعلان ضروری نہ تھا۔ دوسری طرف جمہوریت کی وجہ سے بےنظیر اور میاں نواز شریف امریکی حلقوں میں قابلِ اعتبار تھے۔ پھر افغانستان میں امریکی دوستوں نے غداری کی اور امریکہ پر حملہ کر دیا۔ اِس نئی صورت حال میں امریکہ پاکستان سے بدظن ہوا اور جب امریکی دوست نے نواز شریف کا دھڑن تختہ کیا تو امریکہ پاکستان سے ناراض ہو چکا تھا مگر امریکہ کو پاکستان کی ضرورت تھی۔ پرویز مشرف کو دھمکایا گیا تو وہ امریکہ کا حلیف بن گیا۔

ہماری سیاسی اشرافیہ کو امریکہ اور برطانیہ کی اشیرباد حاصل ہے، ان کو اندازہ نہیں کہ امریکہ کیا چاہتا ہے؟ پاکستان کی نوکر شاہی میں امریکی کردار بہت اہم رہا ہے، اسی وجہ سے آئی ایم ایف آپ سے اپنی شرائط منوا رہا ہے اور ہمارے معاشی اداروں پر آئی ایم ایف کا کنٹرول ہے۔ عمران خان پاکستان کو تبدیل تو نہیں کر سکا مگر بدل ضرور چکا ہے صرف مشکل یہ ہے کہ عمران خان کے بعد کون ہو گا، جو نیا نظام چلا سکے اور عوام کو سکھ دے سکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین