افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاکے وقت شاید ترکی کو توقع نہیں تھی کہ طالبان کابل ایئرپورٹ کا کنٹرول سنبھالنے پر ترکی کو دوٹوک الفاظ میں یہ پیغام دیں گے کہ کسی بھی بیرونی قوت کو افغانستان میں برداشت نہیں کیا جائیگااور اب ایسا لگ رہا ہے کہ طالبان کی مرضی کے برعکس افغانستان میں قیام کے نتیجے میں ترک فورسز کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اوریہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ جب امریکہ اور نیٹو افواج ملکرطالبان کا مقابلہ نہیں کرسکیں تو ترکی کو یہ فیصلہ کرنے میں عجلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ترکی کو شاید نیٹو کا واحد مسلمان رکن ہونے کی حیثیت سے یہ گمان ہوا ہو کہ ہم طالبان کے ساتھ معاملات کو بہتر انداز سے سنبھال سکتے ہیں ،اس پس منظر کے تحت ترکی نے امریکہ سے کابل ایئرپورٹ کی حفاظت کی ذمہ داری لینے کا عندیہ دیا جس میں امریکہ سازو سامان اور مالی طور پر ترکی مدد کرنے کا پابند ہوتا۔ ترکی نے پاکستان کو بھی کابل ایئرپورٹ کی سیکورٹی سنبھالنے کی پیشکش کی لیکن پاکستان نے بظاہر اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا اور طالبان کی طرف سے افغانستان سے انخلا کے دوٹوک بیان کے بعد ترکی کی سفارتی سبکی ایک لازمی امر تھا۔ ترکی نے کابل ایئرپورٹ کی سیکورٹی کے فیصلے سے قبل سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر نہیں رکھاکیونکہ اس طرح کے اقدامات اور فیصلے پہلے پس پردہ طے کئے جاتے ہیں اور بعد میں ان کا اعلان کیا جاتا ہے تاہم ترکی نے طالبان کو اعتماد میں لئے بغیر اعلان کردیا اور طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ نیٹو کا رکن ہونے کی حیثیت سے ترکی افغانستان میںاپنے قدم جمانا چاہتا ہے اس لئے موجودہ صورتحال کے پیش نظر لگتا نہیں کہ ترکی کو کابل ایئرپورٹ کی سیکورٹی سنبھالنے کی اجازت ملے گی۔ترکی کو نیٹو کا رکن ہونے کی وجہ سے ایک سبقت حاصل تھی کیونکہ امریکہ نے ریاست افغانستان سے 2013میں ایک معاہدہ کیا تھا جس کی شقوں میں یہ بات واضح ہے کہ امریکی افواج کسی بھی وقت افغانستان آسکتی ہیں چاہے طالبان چاہیں یا نہ چاہیں یا کوئی اور قوت مخالف ہو ، یہ معاہدہ منسوخ ہونے تک کارآمد ہے اور اس معاہدے کی شق 26کے مطابق اس معاہدے کو منسوخ کرنے سے پہلے دونوں فریقین امریکہ اور افغانستان میں سے جو بھی اس کو منسوخ کرنے کا خواہشمند ہواس کو دو سال کا نوٹس دینا ضروری ہے۔
ترکی امریکہ افغانستان معاہدے کے تحت افغانستان میں قیام کرسکتا تھا یانیٹو کا رکن یا امریکہ کا اتحادی ہونے کا قانونی سہارا لے سکتا تھا جس کا تذکرہ اس دفاعی معاہدے میں موجود ہے یاپھر کوئی نیا معاہدہ بھی کیا جاسکتا تھا لیکن طالبان کے بڑھتے رسوخ کی وجہ سے تاحال کسی نئے معاہدے کا امکان نہیں ہے جس کے تحت ترکی اپنی افواج افغانستان میں نیٹو کے پلیٹ فارم سے ہٹ کر تعینات کرسکے کیونکہ نیٹو افواج افغانستان میں ایک قرارداد کے ذریعے آئی تھیں اور انخلا کے بعد یہ قرارداد غیرموثر ہو چکی ہے تاہم نیٹو چونکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق قائم ہوئی اس لئے اسے ایک ریجنل آرگنائزیشن ہونے کی حیثیت سے نیٹو کے قواعد کے مطابق نیٹو ممالک میں کسی بھی حملے کی صورت میں مداخلت کا اختیارحاصل ہے تاہم امریکہ افغان دفاعی معاہدے کے تحت بھی نیٹو فورسز کو تعینات کیاجاسکتا ہے۔امریکہ طالبان معاہدے کے بعد اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق تمام ممبران کی جانب سے افغان طالبان کو سیاسی تحریک تصور کرنا ایک قانونی ولازمی امرہے کیونکہ اس معاہدے کو اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے تحت رجسٹر کرایا گیا ہے۔امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ سال فروری 2020میں امن معاہدے کے وقت دنیا کو طالبان کو ایک سیاسی قوت و اسٹیک ہولڈر کی حیثیت سے تسلیم کرنے میں کوئی عذر ہوتا تو سامنے آجاتا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ طالبان نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ امریکہ کیساتھ ہونیوالے امن معاہدے کے مطابق افغانستان کی سرزمین کسی دہشت گرد گروہ کے استعمال میں نہیں آئے گی اور ہم القاعدہ، داعش یا کالعدم تحریک طالبان کو کسی صورت افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔افغان طالبان اور کالعدم تحریک طالبان کو سنجیدہ حلقے ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دیتے ہیں تاہم افغان طالبان اور کالعدم تحریک طالبان میں ایک عنصر کا فرق ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث رہی ہے اور اس میںبھارت کا نمایاں کردار رہا ہے جس نے ٹی ٹی پی کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا تاہم اس کے علاوہ افغان طالبان اور کالعدم تحریک طالبان کے بنیادی نظریات ایک ہی ہیں اور کبھی نہیں سننے میں آیا کہ افغان طالبان نے کالعدم تحریک طالبان کے کیمپوں کو اکھاڑ کر ان دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کیا ہو؟ افغان طالبان کا بیان سیاسی تناظر میں تو درست ہے لیکن افغان طالبان ، امریکہ اور اقوام عالم کی پاکستان سے کیا توقعات ہیں ؟یہ تو وقت کے ساتھ ہی معلوم ہوگا۔امن معاہدے میں پاکستان کی کاوشوں کے بعد یہ ضرور ہے کہ افغان طالبان پاکستان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ طالبان کسی کی ڈکٹیشن نہیں لیتے اور اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں اپنے سفرا کے ذریعے یہ پیغام عام کرے کہ طالبان کسی صورت پاکستان کی ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔
(صاحب تحریر سابق سفیر،سینئر تجزیہ کار اور بین الاقوامی امور کے ماہر ہیں)