جیسے ہی رمضان المبارک کا آغاز ہوتا ہے تو مجھے اپنے والد گرامی سید علمدار حسین گیلانی یاد آ جاتے ہیں جو 12دسمبر 1919ء بمطابق 8 محرم الحرام اپنے آبائی گھر واقع پاک دروازہ درگاہ موسیٰ پاک شہید ملتان میں پیدا ہوئے اور ان کا انتقال 3 رمضان المبارک کو ہوا۔پیدائش کے وقت ان کا نام سید ابو الحسن رکھا گیا۔ لیکن 8محرم الحرام کی نسبت سے بعد میں ان کا نام علمدار حسین رکھ دیاگیا کیونکہ ہمارا گھرانہ آغاز سے لے کر اب تک اتحاد بین المسلمین کی علامت سمجھاجاتا ہے۔ اس لئے ان کا نام تبدیل کر کے علمدار حسین رکھ دیاگیا۔میرے والد محترم نے جیسے ہی شعور سنبھالا تو تحریک پاکستان اپنے عروج پر تھی یوں انہوں نے پاکستان کو تشکیل میں بھی اپنا حصہ ڈالا اور تعمیر کے لئے خود کو ہمیشہ تیا ررکھا۔والد محترم کی سیاسی بصیرت کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب 23مارچ 1940ء کو لاہور میں تاریخی قرار داد پاکستان منظور کرنے کے لئے آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس ہوا تو میرے والد گرامی سید زین العابدین گیلانی کی قیادت میں لاہور گئے ان کمے ساتھ سید علی حسین گردیزی ، خواجہ عبدالکریم قاصف اور محمد بخش کپتان بھی تھے۔ ان سب نے قرار داد پاکستان پرز دستخط کئے اور پھر میرے والد نے سید زین العابدین گیلانی کے ہمراہ 14اور 15اگست 1947ء کی درمیانی شب ملتان کی تمام اہم سرکاری عمارات پر قومی پرچم لہرایا۔
والد مجھے بتایا کرتے تھے کہ انہوں نے ابتدائی تعلیم ملتان اور مظفر گڑھ میں حاصل کی۔ ابھی وہ انٹر کے طالب علم تھے تو انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز مسلم لیگ میں شامل ہو کر کر دیا۔ 1941ء میں ایمرسن کالج سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ یوں میرے والد نے ملتان اور اس کے نواح کے علاقوں میں مسلم لیگ کو متعارف کروانے اور فعال بنانے میں اہم کردار ادا کرنا شروع کیا۔ 1951ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نے میرے والد کے نامزد امیدواروں کو ٹکٹ دیئے اور ان انتخابات کے سلسلے میں مسلم لیگ کا کنونشن ہمارے آبائی گھر ”الجیلان “ میں منعقد ہوا۔ جس کی صدارت وزیراعظم پاکستان نواب زادہ لیاقت علی خان نے کی۔ اور اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے وزیراعظم نے میرے والد سید علمدار حسین گیلانی تایا مخدوم ولایت حسین گیلانی اور چچا مخدوم رحمت حسین گیلانی کے ہاتھ تھام کر کہا یہ مسلم لیگ کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔
میرے والدِ محترم نے ایک مرتبہ ہمیں بتایا کہ میں وزیراعلیٰ پنجاب فیروز خان نون سے ملنے ان کمے گھر گیا کہ تمہارے نانا مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ سے اچانک وہاں ملاقات ہو گئی۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کیسے تشریف لائے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ میں سردار محمد خان لغاری (سردار فاروق احمد خان لغاری کے والد) کو صوبائی وزیر بنوانے آیا ہوں۔ مجھے یہ سن کر افسوس ہوا کہ انہیں لغاری صاحب کے علاوہ میری بھی سفارش کرنی چاہئے تھی۔ جب میری ملاقات نون صاحب سے ہوئی تو انہوں نے مجھے کہا کہ تم وزیراعلیٰ پنجاب ہو اور مجھے اپنی کابینہ بنا کر دو۔ میں نے کہا کہ میں وزیراعلیٰ نہیں ہوں، آپ ہی ہیں اور یہ استحقاق بھی آپ ہی کا ہے۔ مگر ورہ بضد تھے کہ کابینہ مجھے ہی بنانی ہے۔ میں نے کابینہ کے لئے پانچ نام تجویز کئے جن میں سردار محمد خان لغاری، رانا عبدالحمید، مظفر علی قز لباش، چوہدری اکبر خان اور شیخ مسعود صادق کے نام شامل تھے مگر جب کابینہ کا اعلان ہوا تو ایک نام کا اضافہ تھا اور وہ نام میرا تھا۔ میرے والد نے 1953ء میں فیروز خان نون کی کابینہ میں وزیر صحت و بلدیات حلف اٹھایا۔اور اس کے بعد انہوں نے اپنے علاقے کی ترقی کے لئے بے شمار کام کئے۔ خاص طور پر ملتان ، میانوالی، مظفر گڑھ، اور ڈیرہ غازی خان کے مختلف علاقوں میں ہسپتال تعمیر کروائے ، اس کے علاوہ ملتان میں نشتر ہسپتال و میڈیکل کالج کے قیام میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔اسی طرح میئو ہسپتال لاہور اور ساملی سینی ٹوریم مری کی توسیع بھی ان کے دور میں ہوئی۔ اس دور میں ڈاکٹروں کی بے حد کمی تھی اور دیہی علاقوں میں طبی سہولتیں نہ ہونے کے برابرتھیں۔ اس اہم انسانی مسئلے کے فوری حل کے لئے والد گرامی نے وکٹوریہ ہسپتال ، بہاولپور میں ایل ایس ایم ایف میڈیکل سکول کی بنیاد رکھی۔ میٹرک کے بعد اس سکول میں تین برس کا میڈیکل کورس کروایا جاتا تھا جس کے بعد دو برس تک دیہی علاقے میں خدمات انجام دینے کی لازمی شرط پوری کرنے پر متعلقہ امیدوار ایم بی بی ایس کے امتحان دینے کا اہل قرار پاتا تھا۔ ماموں سید حسن محمورد اس دور میں بہاولپور ریاست کے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے اس نیک کام کے لئے تمام بنیادی ضروریات بہم پہنچائیں اور یوں ایک درد مند دل کی انقلابی سوچ نے نہ صرف دیہی علاقوں میں طبی سہولتیں مہیا کردیں بلکہ ملک میں ڈاکٹروں کی شدید کمی دور کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ملک میں اس سکیم کے تحت سینکڑوں ڈاکٹروں نے اپنی اعلیٰ قابلیت اور خدمات کی بدولت بڑا نام کمایا ان میں ملتان سے ہمارے فیملی ڈاکٹر محمد حسین ملک اور ڈاکٹر بشیر احمد خان قابل ذکر ہیں۔میرے والد نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر تعلیمی انقلاب لانے کے لئے انجمن اسلامیہ کی بنیاد رکھی جس میں ملتان میں بے شمار تعلیمی ادارے قائم کئے ۔ میرے والد گرامی کے پاس یہ اعزاز بھی ہے کہ انہوں نے 1956ء کا آئین بنانے کے لئے بہت تگ و دو کی اور جب آئین پاس ہو گیا تو تب تمام اراکین ننگے پاوٴں بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کو خراج عقیدت پیش کرنے گئے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ان خدمات کے عوض دنیا کی مشہورکتاب ”The World's Who's Who 1954-55 Edition“ میں ان کا ذکر ہوا ان کی پوری زندگی پاکستان کو خوب سے خوب تر بنانے میں گزری ۔ میرے والدِ محترم جب بھی لاہور تشریف لے جاتے تو حضرت داتا گنج بخش اور حضرت میاں میر کے مزار پر لازمی حاضری دیتے۔
مذہبی طور پرمیر ے والد محترم پورا سال سر گرم رہتے، میں نے ہمیشہ انہیں اپنے بھائیوں کے ساتھ عید میلاد النبی مرکزی جلوس ،10محرم الحرام کے جلوس ، اور ہر جمعرات کو دربار حضرت پیر موسیٰ پاک شہید پر حاضری دیتے دیکھا۔ وہ ہر جمعرات کو اپنی بڑی ہمشیرہ کے پاس تشریف لے جاتے۔ رات کا کھانا انہی کے ہاں کھاتے ۔ اور یہیں پر خاندان کے اکثر معاملات پر گفتگو کرتے ۔ میرے والد جب تک زندہ رہے وہ ہم بہن بھائیوں کی تربیت کے معاملے میں بہت فکر مند رہے۔ کیونکہ ان کی یہ خواہش تھی کہ ہم محب وطن پاکستانی بنیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب میں اپنے خاندان میں کوئی خوبی دیکھتا ہوں تو اس کے پس منظرمیں مجھے اپنے والد کی تربیت نظر آتی ہے ۔یہ بات بھی حقیقت ہے کہ جب میں نے سیاسی سفر کا آغاز کیا تو میری پہچان کا پہلا حوالہ میرے والد گرامی تھے۔ اسی وجہ سے مجھے ملک کے تمام سینئر سیاستدان بڑی محبت سے ملتے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ 1978ء میں جب میرے والد صاحب کا انتقال ہوا تو پاکستان مسلم لیگ نے ان کی جگہ پر مجھے سینٹرل کمیٹی کا رکن بنایا۔ یہ وہ دور تھا جب مَیں تعلیم کے سلسلے میں مصروفِ عمل رہتا تھا۔ لیکن متحدہ مسلم لیگ کی سینٹرل کمیٹی کا رکن ہونے کی وجہ سے میری اکثر و بیشتر پیر صاحب پگاڑا، مخدوم زادہ حسن محمود، فدا محمد خان، غفور خان ہوتی، صلاح الدین صلی، راجہ ظفر الحق، زین نورانی، مولوی عرفان احمد انصاری، رانا خداداد خان، خواجہ خیرالدین، ایس ایم ظفر، خواجہ محمد صفدر، محمد خان جونیجو، محمد حسین چٹھہ اور صاحبزادی محمودہ بیگم سے ملاقاتیں رہنے لگیں۔ 3رمضان المبارک 9اگست 1978ء میں انہی کے بنائے ہوئے نشتر ہسپتال میں جب ان کا انتقال ہوا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے مجھے کسی نے کڑی دھوپ میں کھڑا کر دیا ہے۔ میرے لئے یہ ایک صدمہ ٴ عظیم تھا۔آج ان کو ہم سے جدا ہوئے 35برس ہو گئے، لیکن میں آج بھی جب اپنے آبائی گھر کو دیکھتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے وہ اپنا خوبصورت وجود لے کر میرے سامنے آ جائیں گے۔ میرے سر پر پیار کریں گے اور مجھ سے میرے دکھ پوچھیں گے اور پھر وہ مجھے حوصلہ بھی دیں گے۔ کہ فکر نہ کرو تمہارا بیٹا جلد آ جائے گا۔