اسے گزشتہ سے پیوستہ کہئے
ایک بار پھر قومی زبان کے خلاف سازش اپنے عروج پر ہے اور مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے سب سے پہلے جامعہ کراچی کے بی کام کے نصاب سے قومی زبان اردو لازمی کو نکال کر آئندہ دیگر جامعات سے اردو کے خاتمے کیلئے راہ ہموار کی گئی ہے۔
اس کی کچھ تفصیل میں پچھلے اظہاریے میں لکھ چکا ہوں اور وعدے کے مطابق مزید ضبط تحریر ہے۔ قومی تشخص کے خلاف بزم اساتذہ اردو سندھ (تاسیس 16/ اکتوبر 2012ء) نے بھرپور تحریک شروع کر رکھی ہے اس تحریک کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس بار بحالی تدریس اردو کی تحریک کی قیادت شیخ ایاز کی اردو شاعری پر عالمانہ کام کرنے والی اپوا گورنمنٹ ڈگری گرلز کالج کریم آباد کراچی کی استاد پروفیسر فرزانہ خان کر رہی ہیں جبکہ اس کاروان محبان اردو کو متحرک و فعال رکھنے میں شان الحق حقی پر ڈاکٹر ظفر اقبال شیخ الجامعہ وفاقی اردو یونیورسٹی کی نگرانی میں تحقیق کرنے والے برخوردار باادب عرفان شاہ، استاد سراج الدولہ گورنمنٹ ڈگری کالج نمبر 2کراچی کا کلیدی کردار ہے۔ دیگر میں پروفیسر ملک عبدالقدیر، پروفیسر صفدر علی خان، پروفیسر نسرین زہرا اور نوخیز لیکچرار پی آئی بی گورنمنٹ ڈگری گرلز کالج کی فرح سید بھی آگے آگے ہیں۔
بی کام نصاب میں سے اردو کے اخراج کی وجہ سے جامعہ کے ممبران اکیڈمک کونسل یہ بتاتے ہیں کہ ”قومی زبان اردو“ فنی مہارت حاصل کرنے اور حساب کتاب کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے اور چونکہ ”بی کام“ کی سند فنی نوعیت کی ہے اس لئے ”اردو“ کی ضرورت نہیں، پھر بی کام میں ”مطالعہ پاکستان“ اور ”اسلامیات“ کی تدریس کیوں؟ ان کو بھی خارج کردیا جائے۔
آج بی کام سے کل بی ایس سی اور پھر بی اے، اس کے بعد ایم اے اردو میں کون ہے جو داخلہ لے گا اور پھر معاملہ ختم، قومی زبان اردو اس سے وابستہ ملک کی نظریاتی سرحدیں بھی… اللہ نہ کرے۔
بزم اساتذہ اردو سندھ کی بانی و صدر پروفیسر فرزانہ خان شبانہ روز تدریس اردو کی بحالی کے لئے کوشاں ہے اور اب کوششیں (شاید پچھلے اظہاریے کی اشاعت کے بعد سے) منطقی انجام تک پہنچ رہی ہیں۔ اس ضمن میں صدر نشین شعبہ اردو جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر ذوالقرنین احمد نے منصب سنبھالتے ہی شعبہ کی مجلس مطالعات کا انعقاد کیا اور ’بی کام‘ میں فوری طور پر اردو کی بحالی قرارداد پیش کی، جس کو اراکین پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ فرحان، پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد رضوی، پروفیسر تنظیم الفردوس، ڈاکٹر رؤف پاریکھ، محمد سلمان اور دیگر نے متفقہ طور پر منظور کر کے، رئیس کلیہ فنون کے توسط سے شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصر تک پہنچایا۔ پروفیسر فرزانہ خان کی قیادت میں بزم اساتذہ اردو سندھ کے وفد نے شیخ الجامعہ ڈاکٹر محمد قیصر، رئیس کلیہ تجارت پروفیسر ڈاکٹر ابوذر واجدی، ڈاکٹر رؤف پاریکھ، ڈاکٹر ممتاز احمد خان، ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی محترمہ شہلا رضا سے ملاقات کر کے بی کام میں تدریس اردو کی بحالی کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی استدعا کرتے ہوئے انہیں ”اردو“ خاتمے کے مضمرات پر مشتمل یادداشت بھی پیش کیں۔ شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصر نے اس قومی مسئلے پر فوری اقدامات کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
قومی زبان اردو کی تدریس کو بی کام سے نکالنا اتفاق نہیں بلکہ اس کے پیچھے وہ عناصر کارفرما ہیں جو ملک کے عام آدمی کو قومی دھارے میں شامل ہو کر آگے بڑھتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہئے اور اتحاد و یگانگت کی حامل ”زبان اردو“ کو بانجھ بنا دینا چاہتے ہیں۔ یہ امر بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ سابق شیخ الجامعہ ڈاکٹر ظفر زیدی کی صدر نشینی میں منعقدہ سنڈیکیٹ کے اجلاس 19/اگست 2000ء کی شق نمبر 4 مین اکیڈمک کونسل کے اجلاس منعقدہ یکم مئی2000ء کی قرارداد نمبر 4 محرک پروفیسر ہارون رشید یہ متفقہ طور منظور کیا گیا تھا کہ ”بی کام سال اول، دوم میں مضمون اردو (لازمی) برقرار رکھا جائے اور اضافی مضامین متعارف کرانے کی صورت میں کل نمبروں میں اضافہ کردیا جائے گا۔ موجودہ شیخ الجامعہ اس وقت رجسٹرار تھے اور سنڈیکیٹ کے فیلصوں کی توثیق انہیں کے دستخط سے ہوئی تھی۔