کورونا وائرس کے بعد دنیا ہمیشہ کے لئے بدل گئی ہے۔ کئی دیوالیہ ہوتی کمپنیاں دنوں میں دوگنی تگنی ترقی کرتی دولت مرتکز کر چکی ہیں تو کئی متمول ریاستیں بھی گھٹنوں پر آچکی ہیں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ کرم ہے کہ کورونا اپنی تمام تر تباہی کے باوجود پاکستان میں ویسا انسانی المیہ نہیں بنا جس طرح یہ مشرق وسطیٰ اور یورپ میں تباہی برپا کر چکا ہے۔ لیکن شومئی قسمت ہم دنیا میں صرف اپنی غربت اور سفارتی تنہائی کے باعث کسی اجڑی خانہ بدوش بستی کی طرح دھول میں کھڑے ہیں۔
ہم سے کئی گنا زیادہ شرح اموات کے حامل ممالک نے ہم پر سفری پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ دنیا میں ہماری ایئر لائنز کسی انفیکٹڈ کیریئر کی طرح دیکھی جاتی ہیں۔ لیکن ہمارا دکھڑا سننے کو ہمارا کوئی دوست بھی تیار نہیں بلکہ ان پابندیوں کے فیصلوں میں وہ بھی برابر کے وکیل ہیں۔ امریکہ تو مانا ہمیشہ سے ہی ہرجائی محبوب تھا۔ اب ہمارا ہمدرد کسی کیمپ میں موجود نہیں۔ سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات سے لے کر ہمارے عزیز از جان چین تک سب ہم سے پہلوتہی برتتے نظر آتے ہیں۔ پابندی لگانے والوں میں کسی کی کوئی تخصیص نہیں۔
سفارتی تنہائی کا سفر صرف کورونا سے نہیں جڑا بلکہ ہم ہر معاملے میں دنیا میں تنہائی کا شکار ہیں۔ فیٹف میں پارلیمان کو بلڈوز کرنے سے لے کر لاہور کی سڑکوں کو لہولہان کرنے تک ہم نے کیا کسر چھوڑی لیکن گرے لسٹ کا آسیب ہمیں یوں چپکا ہے کہ ہم سیاہی میں ہی رینگ رہے ہیں۔ لیکن ٹھنڈے ذہن سے سوچنا ہو گا کیا سب دنیا ہی کا قصور ہے یا کچھ ہماری چارپائی تلے بھی غلط ہے؟ کیا دنیا نے ہم سے دشمنی یوں ہی پال رکھی ہے یا پھر ہم نے بھی کچھ جرم کئے ہیں؟
پاکستانی عوام کو بھلے معلوم ہو کہ ہمارے سلیکٹڈ وزیراعظم گفتگو کرتے ہوئے کسی تھڑے پر بیٹھے غریب اَن پڑھ مزدور سے بھی کہیں زیادہ غیر محتاط گفتگو کے عادی ہیں لیکن دنیا بہرحال موصوف کے بیانات کو پاکستان سے نتھی ضرور کرتی ہے۔ ہمیں بھلے معلوم ہو کہ محترم کی کل علمی قابلیت جاپان اور جرمنی کی درمیانی سرحد پر کھڑی ہے لیکن دنیا بطور وزیراعظم یہ گواہی ضرور قبول کرے گی کہ اس ملک کا سارا نظام منی لانڈرنگ پر چل رہا ہے روز اتنے سو ارب کی منی لانڈرنگ تو صرف ایک فرد کر رہا ہے۔
ہمیں بھلے معلوم ہو کہ ہمارے آکسفورڈ گر یجویٹ وزیراعظم کے پودے رات کو آکسیجن فراہم کرتے ہیں لیکن دنیا کیسے نظر انداز کر دے کہ جب شرح نمو پانچ فیصد سے زائد تھی تب عمران نیازی کتنے ہزار ارب کی کرپشن روز پکڑتے تھے۔ اب جب معاشی ترقی منفی ہو چکی ہے تو کرپشن کا کیا عالم ہو گا؟ اگر غلام سرور خان خود دنیا کو بتائیں کہ ہماری ایئر لائنز کے پائلٹوں کی ڈگریاں جعلی ہیں تو دنیا کو ہر پاکستانی طیارہ کیا ایک خودکش بمبار نظر نہ آئے گا؟ٹی وی چینلز پر ریاستی جبر کے بندوبست سے پیچیدہ اعداد و شمار تو پیش کئے جا سکتے ہیں، ہر مخالف صحافی بیروز گار کیا جاسکتا ہے لیکن گلی محلوں میں ابلتی غربت تو دنیا کو کوئی اور ہی داستان سنا رہی ہے۔ ہر شام کسی معصوم بچی کی عصمت دری کی داستان، کسی ماں بہن بیٹی کے لرزہ خیز قتل کا قصہ لیکن حکومت کا اطمینان ایسا ہے جیسے ملک سوئٹزر لینڈ بن گیا ہو۔ اب رہی سہی کسر چینی انجینئرز کے قتل نے پوری کر دی جس پر دوست ملک کا غصہ ٹھنڈا ہونے میں ہی نہیں آرہا۔
مزید تفصیلی حقائق تو اس قدر تلخ ہیں کہ بجا طور پر انہیں ریاستی جرائم قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایک عوامی کالم ایسے حقائق کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا لیکن حکمران چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ کشمیر پر اب دنیا ہمارے کس موقف کے ساتھ کھڑی ہو ؟ وہ موقف جس پر آج ہم خود کھڑے نہیں رہ پائے۔ باقی رہی سہی کسر کشمیر کے متنازعہ ترین الیکشن نے پوری کر دی۔ اب ہم کس منہ سے بھارتی مقبوضہ کشمیر کا کیس لڑیں جب ہمارے وزیر موصوف گنڈاپور نے کوئی کسر نہ چھوڑی ہو۔ کشمیر پر ہمارا موقف صرف استصواب رائے تھا لیکن جنرل مشرف کے چیف پولنگ ایجنٹ صاحب نے اسے بھی ریفرنڈم کے ٹوٹکے سے حل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اگرچہ اب بھی بہت دیر ہو چکی لیکن مزید ڈیمیج کنٹرول کرنے کے لئے زلفی بخاری سے لے کر بزدار سرکار تک سب گھر جائیں ورنہ پاکستان کو ریگستان بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں ہے۔