• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج ہر شخص بے اطمینانی کا شکار ہےکہ غیر یقینی،بدامنی،لُوٹ ماراور عدم تحفّظ گویا ہمارا مقدر سا بن گیا ہے۔ یہ مقدر کیسے تبدیل ہو؟ حالات کیسے بدلیں؟ تجزیے میں بات اِسی نتیجے پر پہنچے گی کہ معاشرے میں استحکام نہیں۔اور یہ استحکام اِس لیے نہیں کہ یہاں کبھی حقیقی جمہوریت کا وجود نہیں رہا۔حقیقی جمہوریت اِس لیے نہ آسکی کہ یہاں مخلص قیادت نے جنم ہی نہیں لیا یا اُسے اُبھرنے کا موقع نہیں ملا۔قیادت کا اخلاص اور قومی مفادات سے دیانت داری کا رویّہ مُلک کے اوّلین ایّام ہی میں رخصت ہوگیا، باقی جو رہا، ذاتی اغراض اور گروہی مفادات کے سوا کچھ نہیں۔ 

یہ سب کچھ اِس لیے ہے کہ ہم نے معاشرے کے استحکام اور اپنی اِس متعیّنہ منزل کے لیے منظّم و متوازن منصوبہ بندی کے تحت کوششیں نہیں کیں،جو ایک نئے مُلک اور ایک نئے معاشرے کے لیے ضروری تھیں۔ایک نئے مُلک اور قوم کے لیے، جو پہلے سے مختلف زندگی گزارنے کی خواہاں تھی،کیا ضرورتیں اور تقاضے ہو سکتے تھے، جو اُسے چین وسکون کی زندگی سے ہم کنار کرتے؟اِس متوازن نظام اور رفاہی معاشرے کے، جو ایک خواب ہی رہا، کچھ بنیادی محرّکات تھے، جن کے نتیجے میں قوم نے ایک تصوّراتی معاشرے میں امنگوں بَھری زندگی کی خواہش کی اور اس کے لیے کم و بیش ڈیڑھ، دو سو سال کوشاں بھی رہی۔اِس تصوّر، خواب کے کیا محرّکات تھے؟ کچھ خواب پورے بھی ہوئے، لیکن تصوّراتی معاشرہ حقیقت نہ بن سکا۔ ایسا کیوں ہوا؟آئیے، اِس کا جواب تلاش کرتے ہیں۔

گو کہ سلطنتِ مغلیہ کے ختم ہونے تک مُلک کا نظام اسلام کے مطابق نہ تھا، لیکن ایک طرف معاشرے میں ہماری روایات مضبوطی سے جاگزیں تھیں، تو دوسری طرف، ساری خرابیوں کے باوجود مُلک کا قانون شریعتِ اسلامی پر مبنی تھا۔اِسی لیے اُس وقت کے مسلمانوں کی کوششوں کا محور مزید اصلاح و تبدیلی اور نظامِ معاشرت کی خرابیوں کو دُور کرنا تھا۔

مغربی سامراجیوں کی آمد نے مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کو ختم کردیا اور مسلمان اکابرین کے مطابق، نئے حکم رانوں کی تمام تر قوّت اِس امر پر مرکوز ہوئی کہ مسلمانوں کی ملّی زندگی میں نظریاتی نقطۂ نظر سے جو زوال آرہا ہے، اُس کی رفتار تیز کردیں اور اُسے اس انتہا تک پہنچا دیں کہ مسلمان سیاسی،مذہبی، تہذیبی یعنی ہر حیثیت سے غلام بن جائیں اور اُن کی انفرادیت برقرار نہ رہے۔

اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں یہ مسئلہ بہت نمایاں ہو کر اُبھرا کہ برطانوی سام راج کے ساتھ ہندو بھی اِس مقصد میں شریک ہوگئے۔ ابتدا میں ہندوئوں کے ساتھ اشتراکِ مقصد کو روکنے کی ایک مؤثر تحریک حضرت مجدّد الف ثانیؒ نے شروع کی، جس کے اثرات بعد میں ایسی مزید تحریکات کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔ مسلمانوں نے برطانوی ہند میں اِس نئی حیثیت کو کبھی قبول نہیں کیا۔ وہ محض ہندوستان میں بسنے والی ایک قوم کی حیثیت سے نہیں، بلکہ امت مسلمہ کی حیثیت سے اپنے قومی وجود کو زندہ رکھنا چاہتے تھے۔ حضرت مجدّدالف ثانیؒ نے اُن کے ملّی وجود کو غیر قوموں کے ساتھ اشتراکِ مقصد سے روکا تھا۔ 

پھر حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اُن کی قومی حیثیت کی مزید فکری آب یاری کی۔ فرائضی تحریک نے مشرقی ہند میں ان تحریکوں کی پیروی کی،1857ء کی جنگِ آزادی مسلمانوں ہی کے دَم قدم سے شروع ہوئی اور اُنہی کے خون سے سینچی گئی۔سیّد احمد شہیدؒ نے جہاد کا اعلان کیا اور تحریکِ مجاہدین نے ایک طویل عرصے تک چھاپہ مار جنگ جاری رکھی۔اُس وقت مسلمانوں نے اپنی تمام کوتاہیوں اور کم زوریوں کے باوجود اسلام کے اِس مزاج کا بار بار اعادہ کیا کہ وہ غیر اللہ کی غلامی کو کسی صُورت قبول نہیں کرسکتے۔1857ء کے بعد مسلمانوں کے سامنے وہ راہ پورے طور پر اجاگر نہیں ہوئی تھی، جو ایک طرف اُنھیں غلامی سے نجات دِلائے اور دوسری طرف، مذہب اور تہذیب سے اُن کے رشتے مستحکم کر کے اُن تاریخی تقاضوں کو تکمیل کا موقع دے، جن کے اظہار کے لیے برّعظیم کی ملّتِ اسلامیہ کا اجتماعی ذہن مضطرب و بے چین تھا۔ 

اِسی اضطراب اور بے چینی کے نتیجے میں مسلمانوں نے گاہے گاہے اسلام کے اس مزاج کا مختلف تصوّراتِ آزادی اور ایک آزاد اسلامی ریاست کے تصوّرات کی شکل میں اظہار کیا۔درحقیقت، حضرت مجدّد الف ثانیؒ سے لے کر تصوّرِ پاکستان تک ایک ہی فکر مختلف صُورتوں اور مختلف تحریکات میں کار فرما رہی۔ اِس سلسلے کی تمام تحریکات دراصل اسی ایک مقصد کے تحت تھیں کہ مسلمانوں کے لیے غیر اللہ کی غلامی سے نجات اور حاکمیتِ الٰہی کے حصول کی جدوجہد کی جائے تاکہ یہ مُلک اگر مکمل طور پر نہیں، تو کم ازکم بڑی حد تک دارالسّلام بن جائے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ برّعظیم میں جس قدر سیاسی تحریکات اُبھریں، اُن میں مسلمانوں کا حصّہ زیادہ رہا۔بعض مسلمان حکم رانوں کی فکری، اعتقادی،سیاسی اور مذہبی حکمتِ عملی کے خلاف جو تحریکات شروع کی گئیں، وہ زیادہ تر علما کی جانب سے یا اُن کی پُشت پناہی کے سبب تھیں۔

اپنے وسیع اور راسخ مقاصد کے اعتبار سے حضرت مجدّد الف ثانیؒ، حضرت شاہ ولی اللہؒ اور سیّد احمد شہیدؒ کی تحریکات مثالی تھیں۔ اُنھوں نے اپنی جدوجہد سے، جس کی آب یاری راسخ فکر اور راست عمل سے ہو رہی تھی، مسلمانوں کو مذہبی ،سیاسی اور تہذیبی اعتبار سے متاثر کیا۔ برّعظیم کی اسلامی زندگی کے ہر پہلو میں ان کے اثرات سرایت کرتے رہے۔ نیز، ان کے زیرِ اثر متعدّد تحریکیں چلیں، جو احیائے اسلام اور حاکمیتِ الٰہی کے لیے سرگرم رہیں۔سلطنتِ مغلیہ کا دورِ زوال اصل میں غیر مُلکی استعمار کی ابتدا کا دَور تھا۔ جہاں جہاں برطانوی اقتدار قائم ہوتا گیا،وہاں اس غیر مُلکی اقتدار سے آزادی کا حصول تحریکاتِ اسلامی کا مقصد قرار پایا۔ 

یہ سیاسی جدوجہد مختلف علاقوں میں اپنی اپنی بساط کے مطابق ہوتی رہی۔پلاسی اور میسور کی جنگیں، برّعظیم میں اسلامی حکومت کو سہارا دینے کی کوششیں تھیں۔ سراج الدّولہ اور ٹیپو سلطان نے اپنے قلم روؤں کے دفاع اور مستقبل کی آزادی کے لیے مردانہ وار لڑتے ہوئے جان دی۔اُس وقت برّعظیم میں نہ صرف مغربی، بلکہ غیر مسلم قوّتیں بھی مسلمانوں کے مقابل آگئی تھیں۔ ابتدا میں ان غیر مسلم قوموں کی مسلّح بغاوتیں زیادہ سخت خطرہ نظر آرہی تھیں، مگر بہت جلد مغرب نے مسلمانوں اور غیر مسلموں، دونوں کا تختہ اُلٹ دیا۔یوں غیر مسلم قومیں بھی، خواہ وہ جنگ جُو تھیں یا غیر عسکری، سب انگریزوں کے زیرِ تسلّط آگئیں۔

1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد مختلف قومیں تھک ہار کر بیٹھ گئیں تاکہ اُن پُرامن مشاغل کو جاری رکھ سکیں، جن کے دروازے اب بھی اُن پر کُھلے تھے۔ اس کلیے سے صرف شمال مغربی سرحد کے مجاہدین اور اُن کے حامیوں کی جدوجہد مستثنیٰ تھی۔ بعد میں تحریکِ عدم تعاون میں مسلمانوں نے نمایاں کردارادا کیا، بلکہ اس تحریک کے تحت اُن کی قربانیاں اُن کی آبادی کے تناسب سے بہت زیادہ تھیں۔ تحریکِ خلافت کے دَوران ہندوستان کے مسلمان آزادی کے خیال سے جوش میں آئے، مگر یہ تحریک اصلاً دوسروں کے لیے اُن کے ایثارِ نفس کی قوّت آزما جدوجہد تھی۔ 

البتہ اُن کی قربانیاں بہت فائدہ مند ثابت ہوئیں۔ انہی قربانیوں نے اُنھیں بڑے پیمانے پر عوامی تحریک کو منظّم کرنے کے طریقۂ کار کی تربیت دی اور پورے برّ ِ عظیم میں سیاسی بیداری عام کردی۔ اب مسلمانوں نے اِس خیال کو ترک کردیا تھا کہ وہ ہندوستان میں ہندوئوں یا برطانیہ کے بھروسے ہی پر زندہ رہ سکتے ہیں۔ اب وہ تیسرے فریق کی حیثیت سے سیاسی جدوجہد کے میدان میں شامل ہوئے۔ تحریکِ خلافت کے دَوران مسلمانوں کے جوش وخروش نے برّعظیم کی سیاسی زندگی میں ایک نئی ہلچل پیدا کردی تھی اور اس کا میدان بہت وسیع ہوگیا تھا۔ 

کانگریس کو بھی، جو ہندوئوں کی نمائندہ جماعت تھی، اِس تحریک کی حمایت سے خاصا فائدہ پہنچا تھا۔حضرت مجدّد الف ثانیؒ کی تحریک کا مقصد بھی یہی تھا کہ اسلامی تعلیمات کو ہندو مت کے ساتھ اشتراکِ مقصد سے روکیں۔ مسلمانوں کی ملّت اور اسلامی تعلیمات کی پاکیزگی اسی طرح برقرار رہ سکتی تھی کہ اُن کی جداگانہ حیثیت و انفرادیت پر اصرار کیا جائے۔ 

حضرت مجدّد الف ثانیؒ کا اثر اُن کے بعد بھی اپنا نقش مرتسم کرتا رہا اور اُن کی فکر نے بعد کی تحریکات کی بھی آب یاری کی۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ بھی یہ نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان برّعظیم کے عام ماحول کا ایک جزو بن کر رہ جائیں۔ وہ مسلمانوں کی علیٰحدہ حیثیت برقرار رکھنے کے لیے بے چین تھے۔ اُن کی رائے میں مسلم معاشرے کی صحت کا یہ تقاضا تھا کہ اسلامی اقدار و قوانین کو ان کے خالص پن کے ساتھ قائم رکھا جائے۔

وہ سمجھتے تھے کہ ایک قوم کی صحت کے لیے سیاسی اقتدار ناگزیر ہے۔ پھر اُن کے پیروئوں نے قوم کے ساتھ اپنے روابط کو خاصی وسعت دی، جس کی متعدّد صُورتیں تھیں۔ شاہ صاحبؒ کے افکار کے مطابق تعلیماتِ اسلامی کی اشاعت کے لیے جلسے منعقد کیے اور اُن کی تعلیمات کو اردو زبان میں لکھنا شروع کیا، جو اصطلاحی کم اور عام فہم زیادہ تھیں۔ اس کام میں شاہ صاحبؒ کے صاحب زادوں نے بھی نمایاں حصّہ ڈالا،انھوں نے اپنی زندگی والد کے بلند اصولوں اور افکارو آرا کی نشرو اشاعت میں گزار دی۔ متعدّد کتابیں تحریر کیں، جن کی زبان ایسی تھی کہ اوسط درجے کا تعلیم یافتہ آدمی بھی آسانی سے سمجھ سکتا تھا۔ شاہ عبدالعزیزؒ ہفتے میں دو مرتبہ بڑے بڑے اجتماعات میں وعظ کرتے تھے، تواُن کے بھائیوں نے اُردو میں قرآن پاک کے ترجمے کیے۔ یہ اردو میں مقصدی ادب کی تخلیق کا ابتدائی دَور تھا۔

انیسویں صدی کی ابتدا تک اردو زبان واحد’’لنگو افرنکا‘‘( ایک ایسی زبان یا زبانوں کا مرکب، جو لوگوں کے مابین ذریعۂ مواصلت ہو) کا درجہ حاصل کرچُکی تھی۔ یہاں کی تمام اقوام کی تحریکات کے علاوہ، غیر مُلکیوں میں یہی زبان مستعمل رہی۔ عیسائیوں کا تبلیغی کام بھی زیادہ تر اُردو ہی میں ہوا۔انیسویں صدی کے آخر میں ہندوئوں کی جانب سے اس زبان کے استعمال کی مخالفت شروع ہوئی، وگرنہ اٹھارہویں صدی تک سب ہندو، مسلمان اُردو ہی کو اپنی ’’لنگو افرنکا‘‘ سمجھتے تھے۔ فورٹ ولیم کالج کے قیام کے بعد انگریزوں کی سیاسی حکمتِ عملی’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ لسانی اعتبار سے اردو، ہندی تنازعے کی شکل میں نظر آتی ہے۔ 

اِس حکمتِ عملی کے تحت ایسی تحریکوں کی حوصلہ افزائی کی گئی، جو ہندوئوں میں ہندو قومیت کا احساس پیدا کرنے کا سبب ہوسکتی تھیں۔ اس بنا پر اردو اور ہندی دونوں کا ارتقا متضاد سمتوں میں ہونے لگا، جو بعد میں ہندو قوم پرستی کے تحت ہندی کے ایک مستقل زبان کی صُورت نظر آیا۔ یہ اردو زبان ہی تھی، جس نے انیسویں صدی میں برّعظیم کے مسلمانوں کو سیاست میں سرگرم کیا۔ صدی کے اواخر میں اردو، ہندی تنازع زبان کے مسئلے سے بڑھ کر مذہبی اور تہذیبی مسئلہ بن گیا۔ سیاسی اور قومی احساس کے ارتقا نے پہلے فرقہ وارانہ شکل اختیار کی اور پھر اس کا نتیجہ زبانوں کی علیٰحدگی اور رسم الخط کے جھگڑوں کی صُورت ظاہر ہوا۔

اِس گفتگو کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ برّعظیم کی اسلامی تاریخ ایسی دینی تحریکات کے اثرات کی منّت پذیر رہی ہے، جن کا مقصد اسلام کا احیا اور برّعظیم میں اس کا نفاذ تھا۔ تحریکِ آزادی اور تحریکِ پاکستان اِسی سلسلے کی کڑیاں تھیں۔اِس ضمن میں جہاں تک اردو زبان کا تعلق ہے، تو مختلف مذہبی،تہذیبی اقدار کے علاوہ اردو نے بھی مسلمانوں کی توجّہ اُن کی علیٰحدہ اور منفرد قومیت کی تشکیل اور تحفّظ و استحکام کی جانب مرکوز کروائی۔

1857ء کے بعد برّعظیم کے مسلمانوں کی قومی و سیاسی تحریکات کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلمانوں کی قومی زندگی میں اردو ہی کے طفیل وحدتِ خیال و عمل پیدا ہوئی اور مشترک مقاصد کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔اردو کی جانب ہندوئوں کی معاندانہ تحریکوں کے نتیجے میں مسلمان اپنے مذہب و تہذیب کے تحفّظ کی جانب متوجّہ ہوئے۔اُن میں دو قومی نظریے کا احساس، جو ابتدا ہی سے موجود تو تھا،لیکن خوابیدہ تھا، زیادہ قوی ہوگیا۔اِس مرحلے پر سَر سیّد احمد خاں نے، جو دو قومی نظریے کو اردو دشمنی کے نتیجے میں پیش کرتے ہیں، مستقبل میں ہندو، مسلم اتحاد کو ناممکن قرار دیا۔ 

ہندوئوں کی اردو دشمنی اور لسانی تنازعے نے مسلمانوں کو اسلام کی اجتماعی روح سے آشنا اور ہزار سال کے خوابیدہ ملّی شعور کو بیدار کیا۔ اردو ہی کے سبب دو قومی نظریے میں شدّت پیدا ہوئی اور مسلمانوں نے اپنی منفرد قومیت کے تحفّظ کے لیے آزاد اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد کی۔ اس جدوجہد کو کام یابی سے ہم کنار کرنے اور آزاد اسلامی ریاست کے قیام کے ابلاغ کے لیے بھی اردو ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہوئی۔اِس اعتبار سے وسط انیسویں صدی کے بعد اسلام کے علاوہ یہ اردو زبان ہی ہے، جس نے واضح صُورت میں دو قومی نظریے کو مہمیز دی اور بعد کے حالات میں یہ نظریہ تقویت پاتا رہا،یہاں تک کہ مطالبۂ پاکستان اور پھر پاکستان کی صُورت ایک حقیقت بن گیا۔

یہاں یہ کہنا شاید مناسب ہے کہ اسلام ایک مستحکم اور مستقل عُنصر ہے، جو مسلمانوں کی قومیت کے لیے کبھی غیر منطقی اور متنازع نہیں رہا۔قیامِ پاکستان کے بعد اسلام کو ایک نئی مملکت اور نئے معاشرے میں جو حیثیت اور اثر ونفوذ حاصل ہونا چاہیے تھا، اُس کی تفصیلات سب کے سامنے ہیں، جہاں تک تحریکِ پاکستان یا مطالبۂ پاکستان کے دوسرے بڑے عامل یا محرّک، اردو زبان کی بات ہے، تو ہم نے مملکت، معاشرے اور اپنی زندگیوں میں اُس کا حق نہ دے کر خود اپنے ساتھ جو ظلم کیا ہے، اس کا حساب ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کے سامنے دینا ہی ہوگا۔

آج اگر قومی اعتبار سے ہم ایک متحد قوم نہ بن سکے، تو اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ ہم نے قومی زبان کو قومیت کے فروغ کے لیے استعمال نہیں کیا ۔نیز، ہم شرحِ خواندگی نہ بڑھا سکے، جو ہماری معاشرتی و معاشی ترقّی ، قومی و سیاسی شعور اور تہذیبی و ثقافتی بالیدگی کا سبب بنتی۔ یہ شرحِ خواندگی اولاً مادری اور پھر قومی زبان پر انحصار سے بڑھ سکتی تھی،گویا قومی زبان سے بے اعتنائی برتنے کی وجہ سے ہم ایک اچھا اور مستحکم جمہوری معاشرہ تشکیل دے سکے اور نہ ہی معاشی و معاشرتی طور پر ترقّی کرسکے۔

تازہ ترین