• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سنا ہے، کہتے ہیں، پڑھا ہے کہ ہیرو ہردور میں، ہر ملک اور معاشرے میں پیدا ہوتے ہیں مگر حالات ان کے لئے موثر نہیں ہوتے۔ اس لئے وہ عام لوگوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں اور ایک روز عام لوگوں کی طرح اس دنیا سے کوچ کرجاتے ہیں۔ ان کے بارے میں قصے کہانیاں مشہور نہیں ہوتیں۔ ان کا ذکر تاریخ میں نہیں آتا۔ ایسی صورت حال کو انگریزی میں کہتے ہیںUnsung Unrecognizedاس دنیا سے چلے جانا۔ آپ تصور کریں ایسے معاشرے اور ملک کا جہاں لوگ ایک دوسرے کیلئے مصیبت کاسبب نہیں بنتے جہاں کوئی کسی کا استحصال نہیں کرتا۔ کوئی کسی کی حق تلفی نہیں کرتا جہاں لوٹ کھسوٹ نہیں ہوتی۔ ایسا معاشرہ اور ملک جہاں چوری، ڈاکہ زنی اور قتل وغارت گری کانام ونشاں نہیں ہوتا جہاں انصاف کابول بالا ہوتا ہے۔ ایسے معاشرے میں ایک دلیر، نڈر،حق اور سچ کے علمبردار کو قدرت کی طرف سے عطا کی گئی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا کبھی موقع نہیں ملتا۔ ہم اسے پہچان نہیں سکتے۔ وہ ہیرو ہونے کے مرتبے سے محروم رہ جاتا ہے۔ایک غیرمعمولی شخص جب ایسے معاشرے اور ملک میں پیدا ہوتا ہے جہاں طاقتور بےدریغ کمزور اور ناتواں کا استحصال کرتے ہیں۔ اسے غربت کی لکیر سے نکل کر آگے آنے نہیں دیتے۔ ایسا معاشرہ جہاں مظلوم جیلوں میں سڑ رہے ہوں اور ظالم سینہ تانے اقتدار کے ایوانوں میں گھومتے پھرتے ہیں۔ جہاں انصاف اشیا کی طرح بکتا ہو۔ ایسے کٹھور اور بےرحم ملک اور معاشرے میں نیلسن منڈیلا پیدا ہوتے ہیں۔ ساوتھ افریقہ میں اگر گوروں کی بالا دستی نہ ہوتی، ان کے اور سیاہ فام عوام کے لئے عدالتیں اور انصاف کے پیمانے الگ الگ نہ ہوتے، ملک کے اصلی اور قدیمی لوگوں کو ہیچ نہ سمجھا جاتا، ملک میں انصاف کا بول بالا ہوتا، تب کئی ایک نیلسن منڈیلا عام لوگوں کی طرح دنیا میں آتے، عام لوگوں کی طرح دنیا چھوڑ کر چلے جاتے۔ ان کے جانے کا نہ سوگ منایا جاتا اور نہ ان کے غیرمعمولی کارناموں کی پذیرائی ہوتی۔ غیرمعمولی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لئے ہیرو کو جب تک حالات میں مطابقت سجھائی نہیں دیتی، ماحول میں ابتری کو للکارنے کی نوبت دکھائی نہیں دیتی، ملک اور معاشرے میں منفی روش نہ ہونے کی وجہ سے ہیرو کو کسی کے سامنے ڈٹ جانے اور سینہ سپر ہونے کے مواقع نہیں ملتے تب تک تما م تر صلاحیتوں کے ساتھ ایک غیرمعمولی شخص سادہ سی زندگی گزار کر یہ دنیا چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔

تمہید کچھ طویل ہوتی جارہی ہے۔ ایسےغیرمعمولی، باصلاحیت، حیران کن، اچھوتے ہنرہندوں کی مستند فہرست تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے جو اپنی قوم، اپنے ملک اور اپنے پیروکاروں کے لئے قابلِ تکریم ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان میں قائداعظم محمد علی جناح اور مہاتما گاندھی جیسے سیاستدان اور بھگت کبیر اورحسین بن منصور الحلاج جیسے صوفی اور مائیکل اینجلو اور صادقین جیسے آرٹسٹ آجاتے ہیں۔ اجازت دیجئے کہ صادقین کےکمالِ فن کے بارے میں مختصراً کچھ کہوں اور پھر دلیپ کمار کے بارے میں بات کروں۔

پاکستان میں بدترین آمریت کا دور تھا۔ کچھ کہنے، کچھ لکھنے حتیٰ کہ کچھ پڑھنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے بھیانک سزائیں رکھی گئی تھیں۔ ہیبت اتنی کہ سانس لیتے ہوئے محتاط رہنا پڑتا تھا۔ ایسے میں صادقین نے گھٹن اور خوف کی ایسی عکاسی کی تھی کہ دنیا دنگ رہ گئی تھی۔ ایک تصویر میں ایک صحرا نورد دکھایا گیا تھا، وہ پینٹنگ صادقین آرٹ گیلری اسلام آباد میں محفوظ ہے۔ صحرا میں سفر کرنے والے سر بریدہ شخص کے ہاتھ میں اپنا کٹا ہوا سر ہے۔ ایک دوسری تصویر میں ایک شخص کی کھوپڑی کھلی ہوئی ہے۔ اس کی کھوپڑی میں گھونسلا ہے۔ گھونسلے میں ایک کوا بیٹھا ہوا ہے۔ بےانتہا حبس اور گھٹن والے ملک اور ماحول میں اس نوعیت کی پینٹنگز بنانا جبر کے خلاف جنگ کے مترادف ہوتا ہے۔ آج صادقین اس ملک کے ہیرو ہیں۔ دلیپ کمار کی بات شروع کرنے سے پہلے ہیروز کے بارے میں ایک اہم بات کا ذکر میں ضروری سمجھتا ہوں۔ یہی بات قوموں کے درمیان لڑائی جھگڑوں اور دیرینہ دشمنی کا سبب بنتی ہے۔ ہم سب، سب سے میری مراد دنیا بھرکے ہم سب لوگ، اپنے اپنے ہیرو کو اس قدر شدت سے چاہتے ہیں کہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہمارا ہیرو دنیا بھر کے لوگوں کا ہیرو ہے۔ جب کبھی ہمارے ہیرو کو ہماری منشا کے مطابق عالمی پذیرائی نہیں ملتی تب ہم آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ ہم ان لوگوں کواپنا جانی دشمن سمجھتے ہیں جوہمارے ہیرو کو اپنا ہیرو نہیں مانتے۔ اس انتہا پسندی میں ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارا ہیرو، ہمارا ہیرو ہوتا ہے۔ دوسروں کا نہیں۔ مثلاً قائداعظم محمد علی جناح پاکستانیوں کے ہیرو ہیں، ہندوستانیوں کے ہیرو نہیں ہیں۔ اسی طرح مہاتما گاندھی پاکستانیوں کے ہیرو نہیں ہیں۔ دو ہمسایوں کے درمیان دشمنی کے انیک اسباب میں، ایک سبب یہ بھی ہے، ہیرو کی پرستش۔

اس قدر سنگین تونہیں، مگر اس قسم کی صورت حال سے ملتی جلتی صورت حال سے میری نسل کے لوگ گزر چکے ہیں۔ ہمارے دور میں ہندوستان کی فلمی صنعت پرتین ہیروچھائے ہوئے تھے۔ ایک تھے دلیپ کمار، دوسرے تھے راج کپور اور تیسرے تھے دیوآنند۔دلیپ ہمارے ہیرو تھے۔ مگرہماری نسل میں ہماری پیڑھی میں ایسے لوگ بھی تھے جو راج کپور اور دیوآنند کواپنا اپنا ہیرو مانتے تھے۔ بات ختم کہاں ہوئی ہے۔ بات تواب شروع ہوئی ہے۔ بات بڑھائیں گے آنے والے منگل کے روز۔

تازہ ترین