پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب میں سنگین بحران کا شکار ہو چکی ہے، یہ بحران اس وقت شروع ہوا جب صوبائی صدر قمر زمان کائرہ، جنرل سیکرٹری چودھری منظور احمد اور پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضیٰ سے زبردستی استعفے طلب کر کے استعفوں کو فوری منظور بھی کر لیا گیا، ان استعفوں کی بظاہر وجہ بتائی گئی کہ صوبائی عہدیداروں کی تین سالہ مدت مکمل ہو چکی تھی جس کے بعد تینوں عہدیدار رضاکارانہ طور پر مستعفی ہو گئے تاکہ نئی صوبائی قیادت کا چنائو ممکن ہو، لیکن ان استعفوں کی اصل وجہ خوشاب میں ہونے والے ضمنی الیکشن تھے جن میں پیپلزپارٹی کا امیدوار چند سو ووٹ لینے کے بعد عبرتناک شکست سے دوچار ہو گیا۔ پیپلزپارٹی پنجاب میں گزشتہ پانچ سال اور بالخصوص رواں سال مئی سے بدترین بحرانوں سے گزر رہی ہے۔
پیپلزپارٹی پنجاب دو پارٹی سسٹم کے ذریعے چلانے کی ناکام کوششیں ہو رہی ہیں، یعنی اوپر پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کی بالادستی ہے جس میں ماسوائے آصف علی زرداری کے کوئی متحرک عہدیدار موجود نہیں اور نیچے پیپلزپارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ موجود ہے، جس میں شامل جیالے کارکن ہر اچھے برے وقت میں میدان عمل میں موجود ہوتے ہیں۔
بظاہر پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو ہیں لیکن ڈوریں آصف علی زرداری کے ہاتھوں میں ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب میں بحران کا آغاز اس وقت وقت ہوا جب بلاول بھٹو نے بطو پارٹی چیئرمین اپریل 2016میں پنجاب کی صوبائی، ڈویژنل اور ضلعی تنظیموں کو معطل کر دیا۔ دو سال تک پنجاب تنظیم معلق رہنے کے بعد 2018کے عام انتخابات کے قریب قمر زمان کائرہ کو صدر، ندیم افضل چن جنرل سیکرٹری اور مصطفیٰ نواز کھوکھر کو صوبائی سیکرٹری اطلاعات کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔
قمر زمان کائرہ نے آخر وقت تک اپنی وفاداری کا مظاہرہ کیا لیکن ندیم افضل چن عام انتخابات کے قریب تحریک انصاف میں شامل ہو گئے اور الیکشن میں حصہ بھی لیا لیکن ناکام ہو گئے جبکہ مصطفیٰ نواز کھوکھر سینیٹ الیکشن میں موقع غنیمت سمجھ کر سندھ کی نشست سے سینیٹر منتخب ہو گئے، بعد ازاں صدر قمر زمان کائرہ کے ساتھ جنرل سیکرٹری چودھری منظور اور سیکرٹری اطلاعات حسن مرتضیٰ کو بنا دیا گیا، تینوں عہدیداروں نے سر دھڑ کی بازی لگائی اور صوبہ میں پارٹی کو متحرک اور فعال کر دیا لیکن رواں سال مئی میں خوشاب الیکشن کا بہانہ کر کے تینوں کو عہدوں سے اچانک فارغ کر دیا گیا جس سے پارٹی میں دوسری بار بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی۔
پنجاب تنظیم معطل کرنے کے بعد سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو بطور چیف آرگنائزر تقرری کے احکامات جاری ہو گئے، پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو نے انھیں پنجاب میں پارٹی کو از سر نو منظم کرنے کے لئے سینئر رہنمائوں سے ملاقاتیں کر کے نئی تنظیموں کے بارے مشاورت اور اضلاع کے دورہ جات کی ہدایت کی لیکن گزشتہ تین ماہ سے راجہ پرویز اشرف پنجاب کے تنظیمی معاملات گوجر خان بیٹھ کر چلانے میں مصروف ہیں اور یہ منصوبہ کہ ان کی چیف آرگنائزر تعیناتی کے بعد پنجاب میں پیپلزپارٹی کی فوری طور پر تنظیم سازی ہو گی ناکام ہو گیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب اور لاہور دونوں تنظیمیں غیرفعال اور غیر متحرک ہو چکی ہیں۔ لاہور کے صدر حاجی عزیزالرحمان چن کو گزشتہ ماہ دل کا دورہ پڑا، اتقاق ہسپتال میں سرجری کے بعد ڈاکٹر انھیں مکمل آرام کا مشورہ دے چکے ہیں جبکہ صوبائی تنظیم پہلے ہی معطل ہو چکی ہے۔
پیپلزپارٹی پنجاب اور لاہور کا کوئی پرسان حال نہیں، صوبائی آرگنائزر گوجر خان میں اپنے قومی اسمبلی کے حلقہ میں مصروف ہیں تو لاہور کے صدر ’’مرد بیمار‘‘ ڈاکٹروں کے مشورے پر سیاسی سرگرمیاں محدود کر کے آرام کر رہے ہیں۔ پنجاب کے چیف آرگنائزر راجہ پرویز اشرف عہدہ سنبھالنے کے بعد صرف دو مرتبہ لاہور میں پارٹی اجلاسوں کے لئے تشریف لائے ہیں اور تنظیمی معاملات سینئر نائب صدر اسلم گل اپنے ہاتھوں میں لئے ہوئے ہیں۔
پارٹی حلقوں میں فیصل صالح حیات، رانا فاروق اور راجہ پرویز اشرف کے پنجاب میں نئے صدر کے لئے نام لئے جا رہے ہیں جبکہ صوبائی جنرل سیکرٹری کے لئے حسن مرتضیٰ، آصف بشیر مانگٹ امیدوار ہیں، پنجاب میں پارٹی کو بحران سے نکالنے کے لئے گزشتہ تین ماہ کے دوران پہلے بلاول بھٹو لاہور تشریف لائے جنھوں نے لاہور تنظیم بھی فارغ کرنے کا عندیہ دیا ۔
آصف زرداری نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب منظور احمد وٹو سے ملاقات کی، بلاول ہاوس میں ہونے والی ملاقات میں منظور وٹو، آصف علی زرداری، راجہ پرویز اشرف بھی موجود تھے، آصف علی زرداری سابق گورنر پنجاب اور پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود کے گھر بھی گئے جہاں پیپلزپارٹی پنجاب کے سابق صدر قاسم ضیا کو خاص طور پر مدعو کیا گیا تاہم قاسم ضیا کسی طور صوبائی عہدے کے خواہشمند نہیں، بعدازاں آصف زرداری فیصل صالح حیات کے گھر پہنچ گئے اور صوبائی تنظیم سازی کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
پنجاب میں پارٹی بحران کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو رواں ماہ عاشورہ کے بعد لاہور کا دورہ اور سیاسی ملاقاتیں کریں گے، پیپلز پارٹی کو پنجاب کی سیاست میں دوبارہ متحرک کرنے کے لئے قیادت کو ایسے صوبائی صدرکی تلاش ہے جو کروڑوں روپے خرچ کر سکتا ہو، راجہ پرویز اشرف مرکز کی سیاست، قومی اسمبلی کے ایوان اور گوجر خان میں اپنے قومی اسمبلی کے حلقہ میں دلچسپی رکھتے ہیں، نیزسابق وزیر اعظم کی حیثیت سے پنجاب کا عہدہ قبول نہیں کریں گے، رانا فاروق جسمانی طو ر پر کمزور ہو چکے ہیں اور پنجاب کے دورے کرکے تنظیم کو فعال کرنا ممکن نہیں ہو گا، قیادت کے مطلوبہ معیار پر فیصل صالح حیات پورا اترتے ہیں۔
فیصل صالح حیات اس سے پہلے بھی پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر رہ چکے ہیں تاہم پرویز مشرف حکومت کے دوران انھوں نے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ سے کامیاب ہو کر پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کی بنیاد رکھی تھی ۔ پیپلزپارٹی پنجاب کے سینئر نائب صدر اسلم گل کہتے ہیں کہ پنجاب میں صرف صدر، جنرل سیکرٹری اور سیکرٹری اطلاعات کے عہدے تحلیل کئے گئے ہیں، باقی تمام ڈویژنل اور ضلعی تنظیمیں موجود ہیں۔
پیپلزپارٹی تین برسوں کے دوران قیادت کی ہدایت پر پنجاب میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں پی ڈ ی ایم میں شامل مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی حمایت کرتی رہی تاہم کنٹونمنٹ الیکشن میں پہلی بار بھرپور حصہ لے گی، آئندہ ماہ ستمبر کے دوران لاہور، اوکاڑہ، سیالکوٹ، اٹک، سرگودھا، راولپنڈی، کھاریاں اور جہلم کنٹونمنٹ میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں ہر جگہ مقابلہ ہو گا۔