• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کشمیر کا مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید اُلجھتا جا رہا ہے۔ دو سال پہلے بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے آئینی سرجیکل اسٹرائیک سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اُسے انڈین یونین میں ضم کر لیا تھا۔ اِس غیرآئینی اقدام نے مقبوضہ کشمیر کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کر دیا ہے جس میں بھارتی فوجی چُن چُن کر آزادی کی جنگ لڑنے والے نوجوانوں کی آنکھوں کی بینائی چھین رہے ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی روزمرہ کا معمول بن گئی ہے۔ اِن لرزہ خیز مظالم کے خلاف بین الاقوامی سطح پہ آوازیں اٹھنے لگی ہیں جن سے بھارت کا امیج بڑی تیزی سے گہنا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت سے نفرت میں شدت آتی جا رہی ہے جس کے بارے میں بھارت کے سنجیدہ حلقوں میں گہری تشویش پائی جاتی ہے، چنانچہ بھارت کے سابق وزیرِ خارجہ یشونت سنہا کی قیادت میں ’’فکرمند شہریوں‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم ہوئی ہے جس کا وفد مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرتا رہتا ہے۔ اُس کے ایک وفد نے حال ہی میں تفصیلی دورہ کی رپورٹ جاری کی ہے جس میں فضائیہ کے سابق نائب سربراہ کپیل کاک، سماجی کارکن سوشو بھابھاروے اور معروف صحافی بھارت بھوشن شامل تھے۔

مسلم حریت کانفرنس کے مسلمہ عظیم قائد حضرت علی گیلانی کے داماد جناب افتخار گیلانی نے اپنے کالم کے ذریعے ہمیں سیاسی قائدین کی اُس سربراہ کانفرنس کے بارے میں تفصیلات بتائی ہیں جو نریندر مودی نے حال ہی میں نئی دہلی میں طلب کی تھیں اور یہ اعلان کیا تھا کہ اِس میٹنگ کے بعد اہلِ کشمیر کی دلّی اور دِل سے دوری ختم ہو جائے گی۔ اُس میٹنگ کے بارے میں عوام کے اندر کوئی جوش و خروش نہیں تھا اور کشمیری سول سوسائٹی کے ایک جہاندیدہ کارکن نے وفد کو بتایا کہ ’’یہ دوری اب کئی صدیوں پر محیط ہو گئی ہے اور کشمیر میں اب کوئی بھارت نواز نہیں‘‘۔ سوپور میں ایک انجینئر نے وفد کو آگاہ کیا کہ 2019سے قبل بعض حلقوں میں یہ خیال پایا جاتا تھا کہ بھارت، پاکستان کے مقابلے میں وسائل کے اعتبار سے ایک بڑا ملک ہے اور کشمیریوں کے لئے اِس میں پھلنے پھولنے کے لئے زیادہ گنجائش ہے مگر اب لگتا ہے کہ ہمیں دھوکا دیا گیا ہے اور ایک جمہوری ملک ہم سے پوچھے بغیر اتنا بڑا فیصلہ کیسے کر سکتا ہے؟ کشمیر اکنامک کونسل کے مطابق دو سال سے مکمل لاک ڈاؤن کے باعث مقبوضہ کشمیر کو ستر ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ کئی افراد نے اِس وفد کو بتایا کہ آر ایس ایس اپنا ایجنڈا کشمیر پہ مسلط کرنا چاہتی ہے جس نے اِس خطے کو ہندو توا لیبارٹری میں تبدیل کر دیا ہے۔

اِس وفد کے سامنے یہ حقیقت بھی پیش کی گئی ہے کہ بھارت کے سیکورٹی اداروں میں غیرمعمولی پریشانی پائی جاتی ہے۔ اِسے ایک دانش ور نے بتایا کہ 2019سے قبل بھارت کو صرف مسئلۂ کشمیر سے نمٹنا تھا، لیکن اب لداخ میں کارگل اور لیہہ کے درمیان کشیدگی اور جموں کی ہندو آبادی میں بڑھتی ہوئی بےاطمینانی سے بھی واسطہ پڑ رہا ہے۔ اِس کے علاوہ ہارٹی کلچر جو ریاست کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، بالکل تباہ ہو گیا ہے۔ اِس وفد کو ایک کمیونٹی لیڈر نے بتایا کہ نوجوانوں میں عسکریت پسندی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پلوامہ کے ایک سوشل ورکر نے اِس حقیقت کا انکشاف کیا کہ فوج کے ہاتھوں پریشان حال نوجوانوں کے لئے دو ہی آپشن ہیں کہ وہ یا تو خودکشی کر لیں یا عسکریت پسندوں کے ساتھ شامل ہو جائیں۔

حال ہی میں پاکستان کے اندر آزاد جموں و کشمیر میں جو انتخابات ہوئے ہیں، اُنہوں نے پاکستان کا چہرہ بگاڑ دیا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران جس قدر سوقیانہ زبان استعمال ہوئی ہے، اُس سے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا کشمیری عوام اُن بداخلاق لوگوں میں شامل ہونا پسند کریں گے؟ اِس کے علاوہ آزاد کشمیر میں کوٹلی کے مقام پر خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم عمران خان نے اعلان کر دیا کہ جب کشمیری پاکستان سے الحاق کر لیں گے، تو ہم اُن سے پوچھیں گے کہ وہ پاکستان کے ساتھ یا آزاد رہنا چاہتے ہیں۔ اِس اعلان نے ذہنوں میں زبردست ارتعاش پیدا کیا ہے۔ سب سے اہم سوال یہ اُٹھ رہا ہے کہ کیا اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں کشمیر کے بارے میں تیسرے آپشن کی گنجائش ہے۔ دوسرا یہ کہ کیا پاکستان کا آئین تیسرے آپشن کی اجازت دیتا ہے۔ تیسرا یہ کہ خودمختار کشمیر کے قیام سے ہمارے خطے میں کیا کیا اسٹرٹیجک مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ بین الاقوامی امور کے ماہرین اِس امر پر متفق ہیں کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں واضح طور پر صرف دو آپشن پیش کئے گئے ہیں۔ بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق۔ پاکستان کے ایک انگریزی روزنامے نے آئین کے آرٹیکل 257کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ہمارا آئین کشمیریوں کو تیسرے آپشن کی اجازت دیتا ہے، مگر آئین کے الفاظ اِس تعبیر و تشریح سے مطابقت نہیں رکھتے، جو یہ ہیں ’’جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام یہ فیصلہ کر لیں گے کہ ہم نے پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا ہے، تب پاکستان اور رِیاست کے مابین رشتے کی نوعیت ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق طے ہو گی۔‘‘ پاکستان کے قابلِ قدر سفارت کار جناب جاوید حفیظ نے اِس رشتے کی کئی صورتیں بیان کی ہیں۔ ایک شکل یہ ہو سکتی ہے کہ پنجاب اور سندھ کی طرح کشمیر بھی پاکستان کا ایک صوبہ بن جائے۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ فارن پالیسی، کرنسی، دفاع اور مواصلات کے سوا باقی تمام اختیارات کشمیری حکومت کے پاس ہوں، یعنی پاکستان کے اندر کشمیر کو مکمل خودمختاری حاصل ہو۔ یوں ہمارے دستور کا آرٹیکل 257تیسرے آپشن کی بات نہیں کرتا۔

خود مختار کشمیر اِس خطے میں بین الاقوامی سازشوں کا گڑھ بن جائے گا اور اُن کشمیریوں کے عظیم جذبوں کی توہین کے مترادف ہوگا جو بھارت کے بجائے پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کرتے اور ترنگے کی جگہ سبز ہلالی پرچم لہراتے ہیں۔ وہ اپنے شہیدوں کو پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر دفن کرتے ہیں۔ اِس تیسرے آپشن کے مضمرات حد درجہ خطرناک ہو سکتے ہیں جو پاکستان کے ساتھ کشمیر کے الحاق میں بہت بڑی رکاوٹ بن سکتے ہیں اور چین کے خلاف امریکی منصوبوں کو تقویت پہنچانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ہم کہاں بھٹک رہے ہیں۔

تازہ ترین