آزاد جموں و کشمیر کے الیکشن تحریک انصاف کی فتح پر منتج ہوئے۔ اس طرح یہ روایت برقرار رہی کہ مرکز میں حکمرانی کرنے والی جماعت کی ہی فتح ہوئی۔ اگرچہ ہارنے والوں نے دھاندلی کے الزامات لگائے مگر عمومی تاثر یہی ہے کہ ماضی میں قبل از انتخابات بے ضابطگیوں یا آخری وقت پر الیکٹ ایبلز کو ادھر سے ادھر کرنے والی روایت سے ہٹ کر کوئی نئی چیز نہیں ہوئی۔ صرف ایک بڑا اپ سیٹ یہ ہوا کہ کئی دہائیوں تک جماعت اسلامی کے امیر رہنے والے رشید ترابی مرکزی قیادت کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آخری وقت پر تحریکِ انصاف کے حق میں دستبردار ہوگئے۔ اس سے جماعت بڑی اسکینڈلائز ہوئی جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ موصوف خطے میں جماعت کے برانڈ امبیسڈر مانے جانے جاتے تھے مگر مخالفین کے بقول اُنہوں نے اپنے ذاتی مقاصد کیلئے تمام اصول و ضوابط کو بالائےطاق رکھا۔ سوشل میڈیا پر تو پیسے لیکر الیکشن سے دستبرداری کے الزامات بھی لگے تاہم کسی نے کوئی ثبوت پیش نہیں کئے مگر خود ترابی صاحب کے سپورٹرز اورجماعت کے ذمہ داران کے مطابق انہیں عہدے کے علاوہ سرکاری جھنڈے والی گاڑی کی پیشکش ہوئی۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھ کر امیر جماعت نے فوری فیصلہ کرتے ہوئےان کی سیاست کو مسترد کرکے انہیں بنیادی رکنیت سے بھی خارج کردیا۔ بالآخر ترابی صاحب نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران آخری داؤ کے طور پر مسئلہ کشمیر کا بھی ذکر کیا مگر اس سے بھی کوئی فائدہ حاصل نہ ہوسکا بلکہ الٹا لوگ برانگیختہ ہوگئے یہاں تک کہ ایک حریت لیڈر نے مجھ سے گفتگو کے دوران ترابی صاحب پر الزام لگایا کہ وہ مسئلہ کشمیر کا استحصال کرنے والوں کی صفِ اول میں شامل ہیں۔ اگرچہ آزاد کشمیر جماعت میں کئی حلقے ابھی تک دبے الفاظ میں ترابی صاحب کی بحالی کے حق میں کمپین چلاتے نظر آرہے ہیں مگر فی الحال جماعت اپنے فیصلے پر ڈٹی ہوئی ہے۔ یہاں اس بات کو صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ جماعت کے ساتھ اپنی طویل وابستگی کی وجہ سے ترابی صاحب نہ صرف سیاسی جماعتوں اور اداروں میں اپنا اثر ور رسوخ بنانے کی آڑ میں جماعت کے اندر ایک پرسنیلٹی کلٹ بنانے میں کامیاب ہوچکے ہیں جو جماعت اسلامی جیسی جماعت کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔
یہاں نصف صدی قبل اس پار کے کشمیر کے ایک ملتے جلتے الیکشن کا ذکر کافی دلچسپ ہوگا، – 1971 میں پورے بھارت کی طرح جموں و کشمیر میں بھی پارلیمانی انتخابات ہو رہے تھے۔ ان دنوں ریاست کے سب سے بڑے لیڈر شیخ عبداللہ اور ان کے حلیف جیلوں میں نظر بند تھے۔ خود جماعت اسلامی کے اکثر لیڈر بھی گرفتار تھے مگر کسی طرح جماعت کے ایک چنیدہ گروپ نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے ضلع اننت ناگ سے حکیم غلام نبی جو بعد میں امیر جماعت بھی بنے،کانگریس کے شفیع قریشی کے مقابل تھے۔ حکیم صاحب کے حق میں رائے عامہ کافی حد تک ہموار تھی کہ اچانک امیر ضلع غلام رسول امام نے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ یہ خبر سرکاری ریڈیو سے نشر ہوئی اور اس کے ساتھ ہی غلام رسول امام کے دستخط سے تیار شدہ ایک پوسٹر بھی چھپ کے آگیا جسے کانگریسی حضرات نے قریہ قریہ تقسیم کیا۔ غلام رسول امام نے ترابی صاحب ہی کی طرح اسلام اور مسئلہ کشمیر کی دہائی دی مگر انہیں جماعت سے فارغ کردیا گیا۔ اننت ناگ کے الیکشن بائیکاٹ سے معروف کشمیری صحافی قاسم سجاد نے 2017 میں پردہ اٹھایا۔ اپنی یادداشت پر مبنی کتابچہ 'لمحات کے ساتھ میں وہ لکھتے ہیں: ’’مفتی محمد سعید نے غلام رسول بابا (امام) کو سات ہزار روپیہ، نئے بنائے ہوئے مکان کی چھت کیلئے ٹین کی سو ڈیڑھ سو چادریں اور ایک گائے (دودھ دینے والی) خریدکر دی۔ رسول امام نے پھر یہ ڈرامہ رچایا۔ عمر کے آخری برسوں میں وہ اندھا ہوگیا اور اسی حالت میں مرگیا۔اس سازش کے رچانے پر لاکھوں روپیہ خرچ کیا گیا تھا۔ حالانکہ بائیکاٹ کے باوجود حکیم غلام نبی ہی چناؤ جیت رہے تھے لیکن جماعت کے پولنگ ایجنٹ مایوس ہوکر بھاگ گئے تھے اور کانگریسی جماعت اسلامی کے حق میں ڈالے گئے ووٹ بھی اپنے ہی حق میں شمار کررہے تھے‘‘۔ جماعت سے نکالے جانے کے بعد غلام رسول امام کھل کر سامنے آگئے اور جب 1979 میں بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تو انھوں نے ایک عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران روتے ہوئے جماعت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں کشمیریوں نے اسلام زندہ باد کے فلک شگاف نعروں کی گونج میں پورے جنوبی کشمیر میں جماعت کے ارکان اور ہمدردوں کے گھر لوٹے، انہیں آگ لگائی اور کئی لوگوں کو قتل کیا یہاں تک کہ جماعت سے وابستہ درسگاہوں کو بھی آگ لگا دی گئی جس دوران توہین قرآن کے ہزاروں واقعات رونما ہوئے۔ یہ وقت ہی بتائے گا کہ ترابی صاحب کے اخراج سے آزاد کشمیر سے کون سا جن برآمد ہوگا۔